بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس کمپریسر کے استعمال کا کا حکم


سوال

ہم نے ایک مفتی صاحب سے گیس پریشر مشین  کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ اگر والٹیج 220 سے کم ہے تو استعمال کر سکتے ہیں اور اگر پریشر 220 یا اس سے زیادہ تو استعمال کرنا جائز نہیں ہے دوسری طرف ہمارے گلی میں اتنے گھر ہیں جس میں گیس نہیں ہوتی خاص طور پر صبح اور شام کے وقت،صبح کے وقت میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو اسکول کالج جانے کے لئے دیر لگتی ہے اس لیے گیس مشین مجبوراً استعمال کرتے ہیں باقی گلی میں جتنے گھر ہیں چوں کہ اس وقت میں گیس ہوتی ہی نہیں ہے تو ہمارے استعمال سے باقی گھروں میں قلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو اس صورت میں ہم کیا کریں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ گیس کی قلت کی صورت میں  زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھرمیں گیس پمپ  لگانا شرعاً جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جب گیس کا پریشر کم ہوگا اور گیس پمپ کے ذریعہ گیس کھینچ لی جائے تو  آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوگی اور وہ اس معمولی گیس سے بھی محروم ہوجائیں گے، اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوتا ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ  گیس کھینچنے کے لیے گیس پمپ کا استعمال کمپریسر  کی مانند خطرے کا باعث بھی بن سکتاہے،  نیز  یہ بھی کہ گیس پمپ کے ذریعہ گیس کا استعمال   قانوناً بھی جرم ہے، اس لیے  گیس کھینچنے کے لیے گیس پمپ کا استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں گیس کا پریشر کم ہو یا زیادہ ہرصورت میں پریشر مشین استعمال کرنا جائز نہیں ہے، گیس پريشر مشين کے ذریعہ گیس کا استعمال   قانوناً جرم ہے،اس لیے گیس کھینچنے کے لیے گیس پمپ یا پریشر مشین کا استعمال کرنا درست نہیں ہے، دوسرے لوگ استعمال کریں یا نہ کریں اس بات کو بنیاد بنا کر اپنے لیے اس کو جائز نہ سمجھا جائے،نیز جو لوگ منع کرنے کے باوجود بھی استعمال سے باز نہ آئیں تو ان کو مسئلہ شرعی سے آگاہ کرکے سمجھایا جائے تاکہ وہ اس گناہ کے عمل سے احتیاط کریں، تاہم مذکورہ گیس پر تیار شدہ کھانا حرام نہ ہوگا، بشرطیکہ کھانے کے اجزاء ترکیبی  میں کوئی  حرام و ناجائز چیز شامل نہ ہو۔

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص".

(حرف "لا"،  برقم: 13474، 6/ 431، ط: المكتبہ التجاریہ )

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره.

"والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى."

( کتاب الحظر و الاباحة، فصل فی البیع،6/ 398،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں