بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس مشین استعمال کرنے کا حکم


سوال

آج کل گیس کا بہت زیادہ مسئلہ ہوتا ہے، تو کیامشین کا استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گیس کی قلت کی صورت میں  زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھرمیں گیس مشین  لگانا شرعاً جائز نہیں ہے،   گیس مشین لگانے سے   دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے، کیونکہ جب گیس کا پریشر کم ہوگا اور گیس مشین کے ذریعہ گیس کھینچ لی جائے تو  آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوگی اور وہ اس معمولی گیس سے بھی محروم ہوجائیں گے، اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوتا ہے،اسی طرح  گیس کھینچنے کے لیے گیس مشین کا استعمال کمپریسر  کی مانند خطرے کا باعث بھی بن سکتاہے،  نیز  گیس مشین کے ذریعہ گیس کا استعمال   قانوناً بھی جرم ہے،اس لیے  گیس کھینچنے کے لیے گیس مشین  استعمال کرنا درست نہیں ہے۔

سنن ابي داؤد ميں ہے:

"عن أبي صرمة - صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌من ‌ضار ‌أضر ‌الله ‌به، ومن شاق شاق الله عليه."

(کتاب الاقضية، باب من القضاء،ج:3،ص:315، ط: المكتبة العصرية)

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص."

(حرف "لا"،ج:6،ص:431،ط: المكتبة التجارية الكبرى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں