بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس جنریٹر(کمپریسر) کا حکم


سوال

 گھر میں ذاتی استعمال کے لیے گیس جنریٹر کے استعمال کا شرعی حکم  کیا ہے؟

جواب

 گیس جنریٹر  سے مراد اگر گیس کی قلت کی صورت میں  گیس کھینچنے کے لیےاستعمال ہونے والا پمپ ہے، تو اس کا   لگانا شرعاً جائز نہیں ؛  اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جب گیس کا پریشر کم ہوگا اور  گیس جنریٹر  کے   ذریعہ گیس کھینچ لی جائے، تو  آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوگی اور وہ اس معمولی گیس سے بھی محروم ہوجائیں گے، اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے، اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوتا ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ  گیس کھینچنے کے لیے  گیس جنریٹر  کا استعمال کمپریسر  کی مانند خطرے کا باعث بھی بن سکتاہے،  نیز  یہ بھی کہ کسی آلہ کے ذریعہ گیس کھینچنا قانوناً بھی جرم ہے؛لہذا گھر میں  گیس جنریٹر کا استعمال نہ شرعاً درست ہے نہ قانوناً، تاہم اگر گیس جنریٹر سے سائل کی مراد  گیس پمپ کے علاوہ ہے، تو اس کی وضاحت کرکےدوبارہ سوال ارسال کریں۔

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص".

(حرف "لا"،  برقم: 13474، ج:6، ص:431، ط: المكتبہ التجاریہ )

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره.

"والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى."

( کتاب الحظر و الاباحة، فصل فی البیع،6/ 398،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں