بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گلے میں تعویذ لٹکانے کا حکم


سوال

کیا گلے میں تعویز لٹکایا جا سکتا ہے؟

جواب

جوشخص پڑھنا جانتاہو اسے موقع محل کے اعتبار سے مسنون دعاؤں اور اَذکار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ایسے شخص کے لیے تعویذ لکھ کر گلے میں لٹکانا بہترنہیں ہے۔ البتہ جو شخص خود نہ پڑھ سکتاہو اس کے لیے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی دعاؤں اور اللہ کے ناموں کے ذریعہ سے اسلامی حدودوضوابط  میں رہ کر تعویز بنانا اور اسے گلے وغیرہ میں لٹکانا جائز اور درست ہے۔ 

چنانچہ حضرت عبد اللہ  بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کی سکھائی ہوئی مسنون دعا اپنے بالغ بچوں کو یاد کرواتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے کاغذ پر لکھ کر ( تعویذ بنا کر ) اس کے گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے۔

نیز اپنے یا بچے کے  گلے میں تعویذ ڈالنا چاہے تو  اس   کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا  جانا ضروری ہے:

(۱)  جو کچھ لکھا ہو اس  کا معنی  ومفہوم معلوم ہو۔

  (۲) اس میں کوئی  شرکیہ کلمہ نہ ہو۔

(۳)  اس کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

لہذا  ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ  قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان کو پہننا شرعاً درست ہے ۔ اور جن تعویذوں میں کلمات  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال   کرنا   شرعاً جائز نہیں ہے۔

سنن الترمذی میں ہے:

" عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا فزع أحدكم في النوم فليقل: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون فإنها لن تضره ". فكان عبد الله بن عمرو، يلقنها من بلغ من ولده، ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه".

(سنن الترمذی،ت شاكر،  رقم الحدیث:3528    (5/ 541)ط:مصطفیٰ البابی )

فتاویٰ شامی  میں ہے:

" في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

 (قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر «من علق تميمة فلا أتم الله له» لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.

وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه» قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار ولا بأس بأن يشد الجنب والحائض التعاويذ على العضد إذا كانت ملفوفةً اهـ".

(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،(6/ 363) ط:سعید)

ملاعلی قاری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

"وأما ما کان من الآیات القرآنیة، والأسماء والصفات الربانیة، والدعوات المأثورة النبویة، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذا أو رقیة أو نشرة، وأما علی لغة العبرانیة ونحوھا، فیمتنع لاحتمال الشرک فیھا".

(مرقاة المفاتیح، کتاب الطب والرقی،7 / 2880  ط: بیروت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں