بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گائے میں شرکت کی صورت


سوال

ايك صاحب مجھے كہتے ہيں كہ ميں اس كو دو جانور خريد كردوں، وہ ان كو ايك سال تك پالے گا، اپنے باڑے ميں ركھے گا، ان كو كھلائے، پلائے گا اور اس كے بدلے ميں ايك جانور ان كا ہو جائے گا اور دوسرا جانور ميرا ہوگا، پھر جب سال بعد ان جانوروں كو بيچا جائے گا تو وہ صرف اسى جانور كے مجھے پيسے دے گا جو ميرا ہوگا، اور دوسرے جانور كے پيسے اُسى كے ہوجائيں گے۔ كيا اس كا معاملہ كرنا شرعاً جائز ہے يا نہيں؟

جواب

مذکورہ صورت جائز نہیں ہے،  بلکہ ایسی صورت میں جانور اور اس کے منافع  دونوں مالک کے ہوں گے، اور پالنے  والے کو اجرتِ مثل  دی جائے گی، یعنی عام طور پر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جو اجرت بنتی ہے پالنے والااس اجرت کا مستحق ہوگا، مذکورہ صورت میں ایک گائے کو مجہول ہونے کی وجہ سے اجرت نہیں بنایا جاسکتا۔ 

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

1-   ایک صورت تو  یہ ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں جانور اور اس کے منافع وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2-  زید (مثلاً)   اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلاً) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے، پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہو جائے گا،  اس جانور سے  جو بچے   پیدا ہوجائیں، ہر ہر بچے میں زیداور عمرو برابر شریک ہوں گےاور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔

3-  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کر جانور خریدیں، اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا، اور اسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے۔

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة".

(4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ط: رشیديه)

خلاصۃ الفتاوی ہے:

"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة".

(خلاصة الفتاوی، ۳/۱۱4، کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ومایتصل بها، ط/قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ".

(6/6۲، کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ، ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة .... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما".

(4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ط: رشیديه)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ".

(المبسوط للسرخسی، ۱۵/6، کتاب القسمة، ط: دار المعرفة – بيروت، تاريخ النشر: 1414هـ = 1993م) 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں