سرکاری ملازمین کا جی پی فنڈ سودہے یا نہیں ؟
جی پی فنڈ کی دو صورتیں ہیں: (1) اختیاری (2) جبری۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".
(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام
(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر".
(رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فضل خال عن عوض بمعيار شرعي وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربًا مشروط ذلك الفضل لأحد المتعاقدين في المعاوضة".
(الدر المختار ج:5، ص: 128/ 129، ط: سعيد)
جواہر الفقہ میں ہے:
’’جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ،وہ شرعا سود نہیں بلکہ اجرت (تنخواہ ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے ،البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ سود بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے‘‘۔
(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ: 3/258، ط: دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101780
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن