بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1446ھ 09 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

فریقین کا فیصلہ ماننے کا حکم


سوال

ہم دوفریقوں کےدرمیان تنازعہ چل رہاتھا، ہم نےمفتیانِ کرام کوثالث مقررکیا، انہوں نےفیصلہ تحریرکرنےکےبعدفیصلہ کولپیٹ کرپہلےہم فریقین سےدستخط لیےتاکہ بعدمیں کوئی انکارنہ کرےاورپھرفیصلہ سنا دیا۔مجھےپوچھنایہ ہےکہ اگرثالث  فریقین کےبیانات کےسماعت کےدوران شرعی تقاضوں کوپورانہ کرےتوکیاایسافیصلہ ماننا لازم ہوگا؟

جواب

واضح رہےکہ حکم/ثالث کافیصلہ اگرغیرشرعی نہ ہوتو فریقین کےلیےاس پرعمل کرنالازم ہوتاہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں جب فریقین نے رضامندی سےمفتیانِ کرام کو ثالث مقرر کیا ، اورمفتیان کرام نےفریقین کےبیانات سننےکےبعد ایک فیصلہ تحریرکیا، اورفیصلہ سنانےسےپہلےفریقین میں سےکسی ایک فریق نےرجوع بھی نہیں کیاتھا، تواب فریقین کےلیےاس فیصلہ کوماننااوراس پرعمل کرنالازم ہے، اورسائل کےلیےاس فیصلہ سےانکارکرناجائزنہیں۔

البتہ ثالث  شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابندہوتا ہے،اپنی مرضی سے خلاف شرع فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا ، لہذا اگر واقعۃً ثالث کافیصلہ شریعت سےمتعارض ہو توپھرایسی صورت میں فریقین  کےلیےاس پرعمل کرنالازم نہیں ہوگا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي...ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد ولا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة، ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف."

(كتاب أدب القاضي، الباب الرابع والعشرون في التحكيم، 397/3، ط:دار الفکر)

فتح القدیرمیں ہے:

"(ولكل واحد من المحكمين ‌أن ‌يرجع ‌ما ‌لم ‌يحكم ‌عليهما) لأنه مقلد من جهتهما فلا يحكم إلا برضاهما جميعا (وإذا حكم لزمهما) لصدور حكمه عن ولاية عليهما

(قوله ولكل واحد من المحكمين ‌أن ‌يرجع ‌ما ‌لم ‌يحكم ‌عليهما لأنه مقلد من جهتهما) إذ هما الموليان له فلهما عزله قبل أن يحكم كما أن للسلطان أن يعزل القاضي قبل أن يحكم ولو حكم قبل عزله نفذ وعزله بعد ذلك لا يبطله فكذا هذا (وإذا نفذ حكمه لزمهما لصدور حكمه عن ولاية كاملة عليهما) فقط لأنه لا يكون دون الصلح وبعدما تم الصلح ليس لواحد أن يرجع."

(كتاب أدب القاضي، باب التحكيم، 317/7، ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع ميں هے:

"‌فإن ‌وقع ‌في ‌فصل ‌فيه ‌نص ‌مفسر من الكتاب، أو الخبر المتواتر، أو الإجماع، فإن وافق قضاؤه ذلك نفذ ولا يحل له النقض؛ لأنه وقع صحيحا قطعا، وإن خالف شيئا من ذلك يرده؛ لأنه وقع باطلا قطعا."

(كتاب أدب القاضي، فصل في بيان ما ينفذ من القضايا، ج:7، ص:14، ط:دار الكتب العلمیة)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال [۸۰۲۱] دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو حکم بنانے کے بعد حکم کے فیصلہ دینے سے قبل  کسی فریق کے اس حکم کو منسوخ اور رد کر دینے کی وجہ سے وہ شرعا رد اور منسوخ ہو جاتا ہے یا نہیں؟ جب کہ حکم پر کچھ بے اعتمادی ہو جائے یعنی معقول وجہ سے حکم کے حکم ہونے کو منسوخ کیا جائے ۔

الجواب حامداً ومصلياً :

اعتماد رہے یا نہ رہے، دونوں صورتوں میں جو فریق بھی چاہے اس تحکیم کو فسخ کر سکتا ہے، اور یہ فسخ کرنے کا حق فیصلہ سنانے سے پہلے حاصل ہے۔"

(باب التحکیم ، ج:16، ص:467، ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں