بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فری فائر (Free Fire) گیم کا حکم


سوال

فری فائر (Free Fire) ایک گیم ہے جس میں دو کردار خصوصیت سے ذکر کرنا ضروری ہے،  ایک کا نام Adam  (یعنی  حضرت آدم  علیہ السلام)  ہے  اور  اس  کی تفصیل میں لکھا ہے کہ  "یہ دنیا میں سب سے پہلے قدم رکھنے والے مرد ہیں"  اور دوسرے کا نام Eve (یعنی حضرت حوا رضی اللہ عنہا) ہےاور اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ "یہ دنیا میں سب سے پہلا قدم رکھنے والی عورت ہے"۔ یہ گیم کھیلنے کے متعلق شرعی حکم بتائیں!

جواب

کسی بھی قسم کے   کھیل کے  جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کہ وجہ سے شرعاً  ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہو مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

اگر کسی گیم میں مذکورہ بالا خرابیوں میں سے کوئی بھی خرابی پائی جائے وہ گیم کھیلنا جائز نہیں ہوگا؛ لہٰذا اگر مذکورہ ویڈیو گیم میں مذکورہ بالا خرابیوں میں سے  کوئی خرابی پائی جاتی ہے یا جان دار کی تصویر یا موسیقی وغیرہ ہوتی ہے تو ایسا گیم کھیلنا جائز نہیں ہوگا۔

نیز ملحوظ رہے کہ کسی گیم میں اگر اسلام کی محترم شخصیات کا کردار دکھایا جائے تو  اسے کھیلنے سے ان شخصیات کا احترام بھی دل سے کم ہونے کا خدشہ ہے؛  لہذا  اس طرح کے گیم عام گیمز کی بنسبت زیادہ قبیح ہیں۔

صورتِ  مسئولہ میں فری فائر (Free Fire) گیم کھیلنا ناجائز ہے۔

روح المعانی میں ہے:

’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.

 (تفسیر الآلوسي (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں