بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فلیٹ کی زکوۃ


سوال

ایک فلیٹ میں نے تقریبا 3 ماہ پہلے خریدا تھا ،اور اس میں  عارضی تقریبا ڈیڑھ ماہ پہلے رہائش بھی کی تھی،وہ فلیٹ تقریبا 20 دن پہلے اس کا سودا ہوچکا ہے،4450000 میں بکا ہے،450000 لاکھ اس نے ادا کردیے ہیں،بقایا رقم  میں سے (350000 )  پینتس لاکھ  یہ رجسٹری کے وقت دے گا،اور باقی رقم چھ ساتھ ماہ میں مکمل کرے گا،اب سوال یہ ہے کہ میری اس رقم پر زکوۃ بنتی ہے؟اور اگر بنتی ہے تو کتنی بنتی ہے؟

جواب

صورت  مسئولہ میں سائل نے جب فلیٹ فروخت کردیاہے،اب فلیٹ کی رقم خریدار کے ذمہ میں قرض ہے،،اور قرض کی زکوۃ اصل مالک کے ذمہ ہوا کرتی ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں قرض کی مذکورہ  رقم پر زکوۃ ادا کرنا لازم ہے،البتہ سائل کو اختیار ہے کہ مکمل رقم کی زکوۃ ایک ساتھ ادا کردے،اور یہ بھی اختیار ہے کہ  جتنی رقم وصول ہوجائے اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ دیتا رہے،البتہ تاخیر کی صورت میں سابقہ سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنا لازم ہوگی۔

       فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص: 395، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں