فطرانہ جس جگہ بندہ رہ رہا ہو اسی جگہ دینا شرط ہے؟ بندہ اسلام آباد سے اپنے تمام گھر والوں کا فطرانہ دے سکتا ہے ؟ یہ شرط تو نہیں کہ گھر والے سندھ میں ہیں تو وہ سندھ میں ہی دے سکتے ہیں ؟
صدقہ فطر کی ادائیگی میں جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے وہاں کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر کوئی شخص اسلام آباد میں میں مقیم ہے تو اس پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر اسلام آباد کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہے ، لہذا اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر بھی وہیں کی قیمت کے حساب ادا کرے گا اور اس کی ادائیگی خواہ وہ اسلام آباد میں کرے یا اسلام آباد کے نرخ کے مطابق کہیں اور کرلے ۔
باقی اس کی اہلیہ اور بالغ بچے جو کہ سندھ میں ہیں، ان پر ان کا اپنا صدقہ فطر سندھ کے نرخ کے مطابق لازم ہے ، لہذا ان کا صدقہ فطر سندھ کے حساب سے ادا کیا جائےگا اور اس کی ادائیگی بھی اسی نرخ کے حساب سے جہاں چاہیں کرسکتے ہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه(قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية كما في الشرنبلالية وهو المذهب كما في البحر فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه."
(کتاب الزکات،ج:2،ص:355،سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين. وعليه الفتوى كذا في المضمرات."
(کتاب الزکات،ج:1،ص:190،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100752
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن