بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض اور واجب میں فرق


سوال

فرض اور واجب میں کیا فرق  ہے، جیسے  قربانی واجب  ہے، صدقۂ فطر واجب ہے۔

جواب

شریعت کے احکام کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: ایک قسم کا نام ’’مامورات‘‘ ہے، جبکہ دوسری قسم کو ’’منہیات‘‘ کہتے ہیں۔ مامورات ان احکامات کو کہا جاتا ہے جن میں کسی کام کے ’’کرنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہو اور منہیات اُن احکامات کو کہتے ہیں جن میں کسی کام سے ’’بچنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہو،  پھر احکامات خواہ وہ مامورات کے قبیل سے ہوں یا منہیات کے قبیل سے، درجات اور مراتب کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں، بلکہ مختلف مراتب اور درجات میں تقسیم ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں فرض اور واجب دونوں ”مامورات“ کی قسمیں ہیں، ان میں عمل کے لحاظ سے فرق نہیں ہے، بلکہ فرض اور واجب دونوں پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے، اسی وجہ سے  فرض  لیے  کبھی واجب ، اور واجب  کے لیے کبھی  فرض کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے ؛کیوں کہ معنوی اعتبار سے دونوں میں بہت قربت اور عمل دونوں ہی پر ضروری ہے، دونوں کو چھوڑنا گناہ ہے، البتہ اعتقاد کے اعتبار سے  ان دونوں میں اصطلاحی فرق ہے، وہ یہ کہ : 

فرض:  اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی اور یقنی  دلیل  سے ثابت ہو، اور اس کی دلالت بھی قطعی ہو، جیسے   قرآن کریم کی  کوئی  واضح آیت یا متواتر حدیث۔فرض  کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔

جب کہ  واجب :  ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے ، یعنی یا تو  وہ ایسے ذریعہ سے ثابت ہو جو قطعی نہیں ہے ، یا ذریعۂ ثبوت تو یقینی ہو، لیکن اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہو،    واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کو کسی عذر کے بغیر  چھوڑنے  والا فاسق کہلاتاہے۔

منحة الخالق    میں ہے :

"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها ،وفي التصريح ثم استعمال الفرض فيما ثبت بظني والواجب فيما ثبت بقطعي شائع مستفيض كقولهم الوتر واجب فرض وتعديل الأركان فرض ونحو ذلك يسمى فرضا عمليا وكقولهم الزكاة واجبة والصلاة واجبة ونحو ذلك فلفظ الواجب أيضا يقع على ما هو فرض علما وعملا كصلاة الفجر وعلى ظني هو في قوة الفرض في العمل كالوتر عند أبي حنيفة حتى يمنع تذكره صحة الفجر كتذكر العشاء وعلى ظني هو دون الفرض في العمل وفوق السنة كتعيين الفاتحة حتى لا تفسد الصلاة بتركها لكن يجب سجدة السهو."

(منحة الخالق علي البحر الرائق، (1/ 49) كتاب الصلاة، ط: دارالكتاب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311101492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں