ایک شخص امام صاحب کو فرض نماز کے بعد کسی مخصوص دعا مثلاً فلسطین کی موجودہ صورت حال وغیرہ کے بارے میں پابند کرتاہےاور ساتھ یہ بھی کہتا ہےکہ دو تین فرض نمازوں کے بعد بلند آواز سے یہ دعا امام صاحب نے کروانی ہے۔
کیا امام کو اس بات کا پابند کرنا شرعاً جائز ہے؟
واضح رہے کہ نماز کے بعد پست آواز میں دعا کرنا افضل ہے،اور لوگوں کی تعلیم کے لیے یا نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں کبھی کبھار جہراً بھی کی جا سکتی ہے،تاہم بلندآواز سے ہر نماز کے بعد دعا کرنے کا معمول بنانا مکروہ ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں امام صاحب کو دو تین نمازوں کے بعد بلند آواز سے مخصوص دعا کرنے کا پابند کرنے کا اختیار شرعا کسی کو نہیں ہوگا۔
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
نماز کے بعد جہری دعا کا حکم:
"فرض باجماعت کے بعد دعا آہستہ مانگےیا زور سے، اگر آہستہ کا حکم ہے تو کس قدر، اور زور سے مانگنے کا حکم ہے تو کس قدر، دونوں میں کون سا افضل ہے، حدیث میں نماز کے بعد کس قدر دعائیں مانگنا وارد ہے، لہذا افضل کیا ہے؟ مطلع فرمائیں۔
الجواب: سرّی دعا افضل ہے، نمازیوں کا حرج نہ ہوتا ہو تو کبھی کبھی ذرا آواز سے دعا کرلے تو جائز ہے، ہمیشہ جہری دعا کی عادت بنانا مکروہ ہے، حدیثوں میں جس طرح دعا کے متعلق روایتیں ہیں کہ آنحضرتﷺ نے یہ دعا پڑھی ایسے ہی یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے رکوع میں " سبحان ربی العظیم" اور سجدہ میں " سبحان ربی الاعلى" پڑھا، لیکن جس طرح رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کی روایتوں سے جہر ثابت نہیں ہوتاتو دعا کی روایتوں سے بھی جہر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:10، ص:198، ط:دارالاشاعت)
أحكام القرآن للجصاص میں ہے:
"وما ذكرنا من الآثار دليل على أن إخفاء الدعاء أفضل من إظهاره؛ لأن الخفية هي السر."
(سورۃ الانعام، باب النهي عن مجالسة الظالمين، ج:3، ص:45، ط:دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100265
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن