بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

فرض نماز كے بعد اجتماعي طور پر دعا كرنا كيسا ہے ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ فرائض کے بعد دعا کرنے کا ثبوت احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے، اور احادیث مبارکہ میں فرائض کے بعد دعا کرنے کو دعا کی قبولیت کے اوقات میں شمار کیا گیاہے، چناں چہ  سنن ترمذی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے) عرض کیا گیا کہ ’’اے اللہ کے رسول! کونسی دعا (اللہ کی بارگاہ میں) زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد۔‘‘

نیز  فرض نماز کے بعد مختلف روایات میں مختلف دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز پڑھنے کے بعد مانگی ہیں،  فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

یہاں احادیثِ مبارکہ کے ذخیرہ  میں سے کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہے، جن سے فرائض کے بعد دعا کا ثبوت ملتاہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا سلام پھیرتے ، تو یہ دعا پڑھتے:

’’اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ.‘‘

اسی طرح حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے لوٹتے تو تین مرتبہ استغفار پرھتے، پھر فرماتے:

’’اللهم ‌أنت ‌السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام.‘‘

اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’ہر نماز کے بعد معوذات پڑھاکرو(معوذات سے مراد تین سورتیں ہیں:قل أعوذ برب الناس،قل أعوذ برب الفلق، قل ھواللہ أحد)۔‘‘

اسی طرح ایک اور روایت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ’’نماز دو دو ( رکعت ) ہے، ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھیے، خشوع، خضوع اور عاجزی اختیار کیجیے اور اپنے ہاتھ اٹھائیے، ( نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم) فرماتے تھے: اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں اپنے چہرے کی جانب کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اپنے رب کی طرف اٹھائیے اور کہیے اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار!، جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے۔ ابن مبارک کے علاوہ دوسرے راوی اس حدیث کو ( اس طرح ) بیان کرتے ہیں: ( نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ) جس نے ایسانہیں کیا تو وہ نماز ناقص ہے۔    ‘‘ 

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔‘‘

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔‘‘

محمد بن ابی یحیی اسلمی فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنی نماز مکمل کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے یہاں تک کہ اپنی نماز سے فارغ ہوجاتے‘‘۔ اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ جو بندہ ہر نماز کے بعد اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور پھر یہ دعا کرتا ہے " اے اللہ! جو میرا الٰہ ہے اور ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا الٰہ ہےاور جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام کا الٰہ ہے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری دعا قبول فرمالے، کیوں کہ میں مجبور ہوں اور میرے دین میں میری حفاظت فرما کیوں کہ میں آزمائش میں ڈالا ہوا ہوں اور مجھے اپنی رحمت سے نواز دے کیوں کہ میں گناہ گار ہوں اور مجھ سے فقر کو دور فرما کیوں کہ میں مسکنت والا ہوں (جو شخص ایسی دعا کرے گا تو) اللہ تعالی اس کے ہاتھوں کو ناکام نہیں لوٹائے گا۔‘‘

ان روایات سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد ذکر کرتے، اور دعا مانگتےتھے۔

۲۔ نماز فرض کے بعد دعا کی مقبولیت کی زیادہ امید ہے؛ کیوں کہ یہ وقت خاص مقبولیتِ دعا کا ہے۔

۳۔ فرض نماز کے بعد دعا مانگنا اُن فرضوں سے مخصوص نہیں ہے، جن کے بعد سنتیں نہ ہوں، بلکہ تمام فرضوں کےبعد دعا ثابت ہے، خواہ اُ ن کے بعد سنتیں ہوں یا نہ ہوں، اس لیے کہ ان احادیث میں سے بعض میں ’’کل صلوٰۃ‘‘ کی تصریح موجود ہے۔

۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اوقات میں نمازوں کے بعد مختلف قسم کی دعائیں ثابت ہے، جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرض کے بعد کسی خاص قسم کی دعا مانگنے کی قید نہیں ہے، بلکہ نماز پڑھنے والا ہر قسم کی دعا مانگ سکتاہے۔ 

الحاصل ان تمام روایات سے یہ بات نہایت صراحت کے ساتھ ثابت ہوگئی ہے کہ فرائض کے بعد دُعا مانگنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور اس کی مقبولیت کی امید بھی زیادہ ہے۔

تاہم واضح رہے کہ  تمام احادیث کے مضامین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فرائض کے بعد  امام، مقتدی اور منفرد سب کےلیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا استحباب معلوم  ہوتا ہے، جس کی وجہ سے فقہاء کرام نے  اسے  سنتِ مستحبہ قرار دیا ہے،  اکابرین علمائے دیوبند  کی تحقیق بھی یہی ہے، اور اسی پر ان کا عمل ہے، پس جب فرائض کے بعد امام، مقتدی اور منفرد سب کےلیے ہاتھ اٹھاکر انفراداً دعا کرنا سنتِ مستحبہ ہے، تو  جب سب نمازی دعا کریں گے، تو اجتماعی  صورت خود بخود بن جائے گی، یہ اجتماع ایک ضمنی چیز ہے، شرعاً مقصود نہیں، اسی طرح  اگر کبھی کبھار امام لوگوں کی تعلیم کے لیے بلند آواز سے دعا کرے اور مقتدی آمین کہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

البتہ  فرائض کے بعد  اجتماعی دعا  کی جو  مروجہ صورت ہے کہ جس میں فرائض کے بعد اجتماعی دعا کو ضروری و لازم سمجھنا، یعنی  فرائض کے بعد سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد باقاعدہ طور پر اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا،  اور اسے ضروری سمجھنا، نہ کرنے والے پر اور دعا میں شریک نہ ہونے والے کو ملامت کرنا، نیز امام کا لوگوں کے فارغ ہونے تک ان کا انتظار کرنا، اور پھر فاتحہ بلند آواز سے پڑھ کر دعا شروع کرنا، اور جب تک دعا ختم نہ ہو، مجلس میں سے کسی کے اٹھ کر جانے سے معیوب سمجھنا یہ تمام طریقہ جدیدہ و محدثہ ہے، اور اس کے بدعت ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں رہتا، کیوں کہ احادیث میں فرض نماز کے بعد دعا کا ثبوت ملتاہے، لیکن وہ امرِمستحب کے درجہ میں ہے، اور شریعتِ مقدسہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی مستحب کو ضروری سمجھ لیاجائے، اور اس پر اصرار کیا جائے، تو وہ بدعت ہوجاتا ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ  فرائض کے بعد نفسِ دعا کے ثبوت سے انکار کیاجائے،  اور اسے بدعت قرار دیاجائے،  یہ بھی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ مذکورہ بالا  روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ؛ اس لیے نماز کے بعد نفسِ دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے۔

نیز یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ’’ فیض الباری‘‘ میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

سنن أبی داؤد میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب، قال: كان النبي صلى عليه وسلم إذا سلم من الصلاة، قال: ’’اللهم ‌اغفر ‌لي ‌ما ‌قدمت ‌وما ‌أخرت، ‌وما ‌أسررت ‌وما ‌أعلنت، ‌وما ‌أسرفت ‌وما ‌أنت ‌أعلم ‌به ‌مني، ‌أنت ‌المقدم ‌وأنت ‌المؤخر، ‌لا ‌إله ‌إلا ‌أنت‘‘."

(باب ما يقول الرجل إذا سلم، رقم:1509، ج:2، ص:83، ط:المكتبة العصرية)

وفیه أیضاً:

"عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم: كان إذا أراد أن ينصرف من صلاته استغفر ثلاث مرات، ثم قال: اللهم فذكر معنى حديث عائشة رضي الله عنها."

(باب ما يقول الرجل إذا سلم، رقم:1513، ج:2، ص:84، ط:المكتبة العصرية)

وفیه أیضاً:

"عن ‌عقبة ‌بن ‌عامر، قال: ’’أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقرأ بالمعوذات دبر كل صلاة‘‘." 

(باب ما يقول الرجل إذا سلم، رقم:1523، ج:2، ص:86، ط:المكتبة العصرية)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي أمامة، قال: قيل يا رسول الله: ‌أي ‌الدعاء ‌أسمع؟ قال: جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات."

( أبواب الدعوات، باب، رقم :3499، ج:5، ص:404، ط:دار الغرب الإسلامي)

وفیه أیضاً:

"عن الفضل بن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌الصلاة ‌مثنى ‌مثنى، تشهد في كل ركعتين، وتخشع، وتضرع، وتمسكن، وتقنع يديك، يقول: ترفعهما إلى ربك، مستقبلا ببطونهما وجهك، وتقول: يا رب يا رب، ومن لم يفعل ذلك فهو كذا وكذا."

(أبواب الصلاة، باب ما جاء في التخشع في الصلاة، رقم:385، ج:1، ص:495، ط:دار الغرب الإسلامي)

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلا ‌رافعا ‌يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: ’’إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته‘‘."

(محمد بن أبي يحيى الأسلمي، عن ابن الزبير، 324، ج:13، ص:129، ط:مكتبة ابن تيمية، القاهرة)

عمل الیوم و اللیلۃ میں ہے:

"عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:  ما من عبد بسط كفيه في دبر كل صلاة، ثم يقول: اللهم إلهي وإله إبراهيم، وإسحاق، ويعقوب، وإله جبرائيل، وميكائيل، وإسرافيل عليهم السلام، أسألك أن تستجيب دعوتي، فإني مضطر، وتعصمني في ديني فإني مبتلى، وتنالني برحمتك فإني مذنب، وتنفي عني الفقر فإني متمسكن، إلا كان حقا على الله عز وجل أن لا يرد يديه خائبتين."

(عمل اليوم و الليلة لابن السني، رقم: 138، ص: 121، ط: دار القبلة، جدة)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"فإذا فرغت فانصب (7) وإلى ربك فارغب  (8).

فيه مسألتان: الأولى- قوله تعالى: (فإذا فرغت) قال ابن عباس وقتادة: فإذا فرغت من صلاتك فانصب أي بالغ في الدعاء وسله حاجتك."

(سورة الشرح ’’٩٤‘‘، ج:20، ص:108، ط:دار الكتب المصرية)

معارف السنن میں ہے:

"قد راج في كثير من البلاد الدعاء بهيئة اجتماعية رافعين ايديهم بعد الصلوات المكتوبة، و لم يثبت ذلك في عهده صلي الله عليه و سلم و بالاخص بالمواظبة، نعم ثبتت ادعية كثيرة بالتواتر بعد المكتوبة و لكنها من غير رفع الايدي و من غير هيئة اجتماعية، نعم ثبت دعاؤه صلي الله عليه و سلم برفع اليدين باجتماع بعد النافلة في واقعتين: احدهما واقعة بيت ام سليم رضي الله عنها حين صلي فيه السبحة و دعا لانس، راه مسلم."

(كتاب الصلوة، باب ما جاء في كراهية ان یخص الامام نفسه بالدعاء، جلد 3، ص: 409، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"فهذه و ما شاكلها من الروايات في الباب تكاد تكفي حجة لما اعتاده الناس في البلاد من الدعوات الاجتماعية دبر الصلوات .... و يقول النووي في شرح المهذب: الدعاء للامام و الماموم و المنفرد مستحب عقب كل الصلوات بلا خلاف ..... و بالجملة التزامه كسنة مستمرة دائمة يشكل ان يكون عليه دليل من السنة."

(كتاب الصلوة، باب ما يقول اذا سلم، جلد 3، ص: 123-124، ط:سعيد)

اس مسئلہ میں اکابر علماءِ کرام نے خوب تحقیق و عرق ریزی کے بعد تفصیلی رسائل تحریر کیے ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کا معمول نقل کیا ہے؛ دیکھیے:

۱۔ ’’استحباب الدعوات عقيب الصلوة‘‘  مؤلف:حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ۔

۲۔ ’’النفائس المرغوبة في حكم الدعاء بعد المكتوبة‘‘ مؤلف: حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ (مفتی اعظم ہند)۔

۳۔ ’’التحفة المرغوبة في أفضلية الدعاء بعد المكتوبة‘‘ مؤلف: حضرت مولانا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں