بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی فرض نماز کا سنتوں کے بغیر پڑھنے کا حکم


سوال

کیا فجر کی فرض نماز سنتوں کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی؟

جواب

واضح رهے كه احادیثِ مبارکہ میں فجر کی سنتوں کی خصوصی تاکید آئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا ہے:

"فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو، اگرچہ   گھوڑے تمہیں روند ڈالیں"۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے:

"فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، ان سب سے بہتر ہے"۔

 اسی لیے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انہوں نے فجر کی نماز کی اقامت ہونے کے بعد بھی سنتِ فجر کو ادا فرمایا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جماعتِ فجر شروع ہونے کے بعد یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جماعت شروع ہونے کے بعد سنتِ فجر ادا کرنا ثابت ہے۔  حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم سے بھی اسی طرح ثابت ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ارشادات اور ان کا عمل در اصل سنتِ رسول کی تشریح و توضیح کا درجہ رکھتے ہیں؛ کیوں کہ صحابہ کے بارے میں یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ وہ سنتِ رسول کی خلاف ورزی کریں، اسی پس منظر میں ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ  اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد بھی یہ فجر کی دو سنتیں ادا کی جائیں گی ۔

چنانچہ یہ کہنا کہ فجر کی فرض نماز سنتوں کے بغیر ہوتی ہی نہیں، یہ درست نہیں بلکہ اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کی تفصیل یہ ہے کہ اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہو تو سنت نہ چھوڑے، اور  اگر اس کی بھی  امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے، بلکہ اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد اسی دن زوال سے پہلے پہلے پڑھ لے، اور فی الوقت امام کے ساتھ فرض میں شامل ہوجائے۔ 

فجر کے  علاوہ دوسری کوئی بھی فرض نماز شروع ہوچکی ہو تو سنت شروع کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا  ارشاد  ہے:

"  جب جماعت شروع ہوجائے تو سوائے اس نماز کے کوئی اور نماز نہ پڑھی جائے۔"

ہاں اگر سنتیں شروع کردی ہوں، پھر فرض نماز شروع ہوجائے تو دو  رکعت مکمل کرکے سلا م پھیردے، اور اگر چار رکعت والی سنت پڑھ رہا ہو  اور تیسری رکعت شروع کردی تو جلدی سے چار مکمل کرکے جماعت میں شامل ہوجائے۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة."

(صحيح مسلم : 1/ 493)

شرح مشكل الآثار (10/ 320،321):

"عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها.

 عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاتتركوا ركعتي الفجر و إن طردتكم الخيل."

الدر المختار مع رد المحتار:  (1/ 377):

"(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً.

(قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية.
(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعاً للبحر، لكن ضعفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لايصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعة، وسيأتي في باب إدراك الفريضة، ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره''.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں