بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنتوں کی قضا کا حکم


سوال

اگر صرف فجر کی سنت چھوٹ جائے تو کیا اس کی قضا اشراق کے وقت کرسکتے ہیں؟ اور اگر فجر کی فرض اور سنت دونوں چھوٹ جائے تو کیا دونوں کی قضا کرنی ہوگی؟ میں نے سنا ہے کہ صرف اس دن کے زوال کے وقت سے پہلے تک دونوں کی قضا کرسکتے ہیں، اس کے بعد صرف فرض کی، اگر یہ صحیح ہے تو کیا اس دن زوال کے بعد اور اس دن کے علاوہ جب بھی فجر کی قضا کریں گے تو کیا صرف فرض کی ہی قضا کرنی ہوگی؟ اور میں نے بہت سی مرتبہ زوال سے پہلے صرف فجر کے فرض ہی کی قضا کی ہے سنت کی نہیں، تو کیا میرا فرض ادا ہو جائے گا یا نہیں؟ اور میں نے بہت سی مرتبہ زوال کے بعد اور زوال کے بعد جب بھی فجر کی نماز کی قضا کی ہے تو سنت اور فرض دونوں کی قضا کی ہے تو میری نماز کا کیا حکم ہوگا؟ اور میں نے کئی مرتبہ فجر کی سنت چھوٹ جانے پر اشراق کے وقت اس کی قضا نہیں کی  ہے تو اس کا بھی حکم بتا دیجیے؟

جواب

سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت شروع ہو گئی ہو تو اگر اسے امید ہو کہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو اسے چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے، یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر)  فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے، اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے،  اور سنت رہ جانے کی صورت میں سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد  صرف فجر کی سنت قضا کی جاسکتی ہے اور یہ حکم اسی دن کے زوال تک کے لیے ہے،  اس دن کے زوال کے بعد فجر کی سنت کی قضا درست نہیں۔

اور اگر فجر کی جماعت نکل جائے تو فجر کے وقت کے اندر  نماز پڑھنے کی صورت میں پہلے سنت اور پھر فجر کی فرض نماز ادا کریں، البتہ اگر وقت کم ہو یعنی سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو پھر صرف فرض نماز پڑھ لی جائے۔ اور پھر طلوع کے بعد  مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے پہلے صرف سنتوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔ 

اور اگر  فجر کی نماز قضا  ہو جائے تو اسی دن زوال سے پہلے قضا کرنے کی صورت میں   فرض کے ساتھ سنتوں کی قضا بھی کرلیں، اور اگراس دن کے زوال کے بعد قضا کر رہے ہیں تو  صرف فرض کی قضا کریں گے، سنت نہیں پڑھیں گے۔

 اور اسی دن زوال سے پہلے قضا کرنے کی صورت میں دو رکعت سنت قضا کی نیت سے پڑھیں اور پھر اس کے بعد فرض کی قضا کریں۔

اور اگر صرف فرض نماز ادا کی ہے تو فرض نماز ادا ہوگئی، البتہ سنت چھوڑنے کی عادت نہ بنائی جائے۔ آئندہ  احتیاط کریں۔اور زوال کے بعد قضا کرنے کی صورت میں اگر فرض کے ساتھ سنت کی نیت سے بھی دو رکعت ادا کی ہیں تو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا، البتہ اس کی وجہ سے فرض نماز پر اثر نہیں ہوگا، فرض بہرصورت ادا ہوگئی، اور زوال کے بعد جو دو رکعت، سنت کی نیت سے ادا کی گئیں امید ہے کہ ان پر نفل کا ثواب ملے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):

"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل.

(قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں