بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز کی قضا؟ اور مقتدی کا قعدہ اولی میں درود شریف پڑھنے کا حکم


سوال

1- فجر  کی  نماز  کی  قضا  کس طرح  کی  جائے  گی؟   سنت  کے  ساتھ  یا  صرف  فرض؟

2-   کیا قعدہ اولی  میں مقتدی درود شریف پڑھ  سکتا ہے؟

جواب

نمازوں کو  اپنے مقررہ اوقات میں باجماعت اداکرنا مسلمان پر  لازم ہے، اور جماعت کی نماز اکیلے نماز پڑھنے پر کئی گنا فضیلت اور اجر رکھتی ہے، جان بوجھ کر نماز قضا کرنا سخت گناہ ہے،احادیثِ مبارکہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی  ہیں، لہذا  نمازوں کو  مقررہ وقت میں جماعت کے ساتھ اداکرنے کااہتمام کریں۔

1- صورتِ  مسئولہ  میں اگر فجر کی نماز قضا ہو جائے تو سورج  نکلنے کے بعد اشراق کا وقت ہوتے ہی اُس کی قضا کرلینا درست ہے، بلکہ جلد از جلد قضا کر لینی چاہیے، اور فجر کی قضا اسی دن کے  زوال سے پہلے کرنے کی صورت میں سنت بھی پڑھی جائے گی۔ البتہ اگر  اس دن کے زوال کے بعد قضا کی جا رہی ہو، یا   اس دن کے علاوہ  پہلے  ایام کی قضا کی جا رہی ہو تو پھر ایسی صورت میں  سنت کی قضا نہیں کی جائے گی،  صرف فرض کی قضا ہو گی۔ 

2- مقتدی   قعدہ اولی میں  درود شریف  نہ پڑھے، تاہم اگر امام کی اقتدا  میں مقتدی نے بھولے سے قعدہ اولی میں درود شریف پڑھ   لیا تو امام کی اقتدا  میں ہونے کی وجہ سےسجدہ سہو لازم نہ ہو گا۔ لیکن اگر کسی تنہا نماز  (فرض، سنتِ مؤکدہ، یا وتر) پڑھنے والے نے، یا امام نے قعدہ اولی میں  درود شریف پڑھ  لیا، یا درود  شریف میں سے "اللّٰهمّ صلّ على محمد" تک پڑھ لیا تو سجد سہو  لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولايقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل. (قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر؛ فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال، وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال، كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده، كما ذكره في الكافي إسماعيل."

(کتاب الصلاۃ، باب إدراك الفريضة، ج: 2، صفحہ: 57، ط: ایچ، ایم، سعید) 

فتاوی خانیہ علی ھامش الہندیہ  میں ہے:

"و لو زاد في القعدة الأولى على التشهد وقال: اللهم صلى على محمد يلزمه السهو."

(ج: 1، صفحہ: 121، ط: رشیدیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں