فجر کی نماز قضا کرنے کا طریقہ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر فجر کی نماز قضا ہو جائے تو جلد از جلد اس کی قضا کر لینی چاہیے، یعنی سورج نکلنے کے بعد اشراق کا وقت ہوتے ہی اُس کی قضا کر لینی چاہیے، اور فجر کی قضا اسی دن کے زوال سے پہلے کرنے کی صورت میں سنت بھی پڑھی جائے گی، البتہ اگر زوال کے بعد قضا کی جا رہی ہو تو پھر سنت کی قضا نہیں کی جائے گی۔
نیز قضا نماز کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اگر اس کا دن معلوم ہے تو اس کی مکمل تعیین کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً: پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں۔ البتہ اگر یاد نہ ہونے یا فوت شدہ نمازیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً: جتنی فجر کی نمازیں قضاہوئی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.
(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".
(كتاب الصلوة ،فروع في قضاء الفوائت ،ج :2 ،ص :72 ،ط :سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ويحتاج إلى التعيين في القضاء أيضا. هكذا في فتح القدير.
"ولو كانت الفوائت كثيرة فاشتغل بالقضاء يحتاج إلى تعيين الظهر والعصر ونحوهما وينوي أيضا ظهر يوم كذا وعصر يوم كذا. كذا في فتاوى قاضي خان والظهيرية وهو الأصح. كذا في التبيين في مسائل شتى فإن أراد تسهيل الأمر ينوي أول ظهر عليه. كذا في فتاوى قاضي خان والظهيرية وهكذا في التبيين في مسائل شتى."
(كتاب الصلوة ، فصل الرابع في النية ،ج:1 ،ص :66 ،ط : رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144611102797
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن