بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں ملنے والی رقم کا حکم


سوال

ایزی پیسہ والے اکاؤنٹ میں 2000 روپے رکھنے پر یومیہ 3 روپے دے رہےہیں،آیا یہ رقم ہمارے لیے وصول کرنا جائزہے یا حرام؟ اور یہ رقم 10000 اکاؤنٹ میں رکھنے پر یومیہ 15 روپے دے  رہے ہیں۔

دوسرا یہ کہ کسی دوسرے نمبر پر رقم بھیجنے پر کبھی کبھار ریفنڈ بھی مل جاتا ہے کبھی 15 روپے یا کبھی 30 روپے اور یہ کمپنی خود دے رہی ہے۔

تیسرا یہ کہ کوئی کسی ساتھی کو ایزی پیسہ انسٹال کرنے کی دعوت دے اور وہ اسی میسج پر کلک کرکے وہ دعوت قبول کرکے ایپلیکیشن انسٹال کرلے تو دعوت دینے والے کو ایزی پیسہ 50 روپے دے گی۔

جواب

’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ ‘‘  ایک ایسی سہولت ہے جس میں آپ اپنی جمع کردہ رقوم  سے کئی قسم کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً: بلوں کی ادائیگی، یا رقوم کا تبادلہ، موبائل وغیرہ میں بیلنس کا استعمال وغیرہ ۔ نیز تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی پشت پر ایک بینک ہوتا ہے، "telenor micro-financing bank "، یہ بھی ایک قسم کا بینک ہی ہے کہ جس میں عام طور پر چھوٹے سرمایہ داروں کی رقوم سود پر رکھی جاتی ہیں اور اس میں سے چھوٹے کاروباروں کے لیے سود پر قرض بھی دیا جاتا ہے۔

اس کی فقہی حیثیت یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے ، اور  چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے ؛ اس لیے اس قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا   کمپنی  اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر  یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے یا رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ دیتی ہے یا ایزی لوڈ پر کیش بیک دیتی ہے تو  ان کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت  قرض ہے، اور  قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو  مشروط منافع دیتی  ہے، یہ  شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع  کے لین دین  کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ 

لہذا ایزی پیسہ اکاؤنٹ  (جس میں مخصوص رقم رکھنے پر یہ منافع مشروط طور پر مل رہے ہیں)  میں  ملنے والی رقم یا اس اکاؤنٹ کی موجودگی میں کسی کو اس اکاؤنٹ کے انسٹال کی دعوت دینے کی صورت میں ملنے والی رقم کا استعمال جائز نہیں ہے۔

اگر کوئی ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘  کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جلد از جلد مذکورہ اکاؤنٹ ختم کروائے اور صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا صرف جمع کردہ رقم کے برابر استفادہ کرسکتاہے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں