بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سے زائد قضا نمازوں کی ادائیگی کے لیے اذان اور اقامت کا حکم


سوال

میرے ذمہ ایک سال کی نمازیں قضا ہیں، اب میں ان کو وقتی نمازوں کے ساتھ ایک ایک ادا کرنا چاہتا ہوں، اب اس کے لیے اذان اور اقامت کہنا شرط ہے یا نہیں؟ اور اگر اذان اور اقامت نہ کہی جائے تو مکروہ ہے یا نہیں؟ "نورالایضاح" میں اذان اور اقامت نہ کہنا مکروہ لکھا ہے اگر علیحدہ علیحدہ نمازیں قضا پڑھنی ہوں تو کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کے ذمے ایک سے زائد قضا نمازیں  ہیں اور وہ ایک ہی مجلس میں انہیں ادا کرنا چاہتاہے تو  پہلی نماز کے لیے اذان و اقامت دونوں کا کہنا مسنون ہے اور بقیہ میں اختیار ہے چاہے تو اذان و اقامت دونوں کہے یا صرف اقامت پر اکتفا کرے،   البتہ اگر یہ نمازیں  الگ الگ مجلس میں ادا کرے تو پھر ہر نماز کے لیے اذان و اقامت کہنا مسنون ہے۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومن فاتته صلاة في وقتها فقضاها أذن لها وأقام واحدًا كان أو جماعةً، هكذا في المحيط. وإن فاتته صلوات أذن للأولى وأقام وكان مخيرًا في الباقي إن شاء أذن وأقام وإن شاء اقتصر على الإقامة، كذا في الهداية. وإن أذن وأقام لكل صلاة فحسن ليكون القضاء على سنن الأداء، كذا في الكافي، وهكذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي. والتخيير في البواقي إنما هو إذا قضاها في مجلس واحد، أما إذا قضاها في مجالس فيشترط كلاهما، هكذا في البحر الرائق. والضابطة عندنا أن كل فرض أداءً كان أو قضاءً يؤذن له ويقام، سواء أداه منفردًا أو بجماعة إلا الظهر يوم الجمعة في المصر، فإن أداءه بأذان وإقامة مكروه، كذا في التبيين.

(کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفة الأذان وأحوال المؤذن،ج: 1، صفحہ: 55، ط: دار الفکر) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں