بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیدین کی مبارکباد دینے کا حکم


سوال

عیدین کی مبارکباد دینا کیسا ہے؟ کیا صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے عیدین کی مبارکباد دینا ثابت ہے؟

جواب

عید کی مبارک باد دینا اس کے بابرکت ہونے کی دعا دینا ہے، جوکہ بذاتِ خود جائز ہے اور صحابہ کرام سے بھی عید کی مبارک باد دینے سے متعلق بعض آثار منقول ہیں، علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ محقق ابن امیر الحاج رحمہ اللہ نے صحیح اَسناد کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے آثار ذکر کیے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

 (قوله : لا تنكر ) خبر قوله "والتهنئة"، وإنما قال كذلك؛ لأنه لم يحفظ فيها شيء عن أبي حنيفة وأصحابه، وذكر في القنية: أنه لم ينقل عن أصحابنا كراهة، وعن مالك: أنه كرهها، وعن الأوزاعي: أنها بدعة، وقال المحقق ابن أمير حاج: بل الأشبه أنها جائزة مستحبة في الجملة، ثم ساق آثاراً بأسانيد صحيحة عن الصحابة في فعل ذلك، ثم قال: والمتعامل في البلاد الشامية والمصرية "عيد مبارك عليك" ونحوه، وقال: يمكن أن يلحق بذلك في المشروعية والاستحباب؛ لما بينهما من التلازم، فإن من قبلت طاعته في زمان كان ذلك الزمان عليه مباركاً، على أنه قد ورد الدعاء بالبركة في أمور شتى؛ فيؤخذ منه استحباب الدعاء بها هنا أيضاًاه۔(2/169،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں