بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کے دن میت کے گھر جانا


سوال

عید سے کچھ دنوں پہلے رمضان میں ایک شخص کی وفات ہوئی تو کیا عید کے دن عزیز و اقارب کا اس اہل میت کے ہاں اس نیت سے جانا اور جمع ہونا کہ آج عید کا دن خوشی کا موقع ہے، اور میت کے لیے دعاء مغفرت وغیرہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے تعزیت کا وقت موت کے بعد تین دن تک ہے، تین دن کے بعد تعزیت مکروہ ہے،  ہاں اگر میت کےگھر والےیا تعزیت کرنےوالا وفات کے بعد تین دن تک موجود نہ ہو تو  تین دن کےبعد بھی تعزیت کرنا مکروہ نہیں ہے اور ایک مرتبہ تعزیت کے بعد دوبارہ تعزیت کرنا بھی صحیح نہیں، لہٰذاتعزیت کے ایام گزر جانے کے بعد عید کے دن میت کےعزیز و اقارب کے ہاں اس نیت سے جانا اور جمع ہونا  کہ انتقال کے بعد پہلی عید  ہے، اور میت کے لیے دعا وغیرہ کرنا  درست طریقہ نہیں، اس سے اجتناب ضروری ہے۔ نیز شرعی اعتبار سےشوہر کے علاوہ کسی کےانتقال کےبعد تین دن  سے زیادہ سوگ منانا بھی جائز نہیں، تا ہم اگر کسی کا فوتگی والے گھر سے قریبی رشتہ ہو،اور وہاں آنا جانا بکثرت ہو،تو عید کے موقع پر ان سے ملنا جائز ہے،تعزیت اور سوگ کی نیت سے جانا درست نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:
"عن زينب بنت أبي سلمة، قالت: لما جاء نعي أبي سفيان من الشأم، دعت أم حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها، وذراعيها، وقالت: إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشراً»".

(البخاري، رقم الحدیث: 1280، ج:2 ص: 78، ط:دار طوق النجاة )

ترجمہ: حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر شام سے پہنچی، تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے دن زرد رنگ (جو بطورِ  خوش بوعورتیں استعمال کرتی تھیں) منگوایا، اور اپنے چہرے اور ہاتھوں پر لگایا، اور فرمایا: میں اس سے مستغنی ہوں، (یعنی مجھے بناؤ سنگھار کی ضرورت یا شوق نہیں ہے، اس لیے میں یہ کام نہ کرتی) اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے شوہر کی وفات پر کہ اس میں چار ماہ دس دن سوگ منائے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و روی الحسن بن زیاد إذا عزی أهل المیت مرةً فلاینبغي أن یعزیه مرةً أخری، کذا في المضمرات. و وقتها من حین یموت إلی ثلاثة أیام و یکره بعدها إلا أن یکون المعزی أو المعزی إلیه غائبًا فلا بأس به".

(هندیه ج:1 ص:167،کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون، الفصل السادس، ط:مکتبه رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں