بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کے دن فوتگی والے گھر جانا


سوال

عیدکےدن فوتگی والےگھر جانا اور رونا کیسا ہے؟ اور اس دن کیا اعمال کرنا چاہیے  فوتگی والے گھر جا کر؟

جواب

شرعی اعتبار سے شوہر کے علاوہ کسی کے انتقال کے بعد تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں؛ اس لیے عید کے دن  افسوس کرنے اور ماتم کرنے کی نیت سے  فوتگی والے   گھر جانا، رونا پیٹنا اور  باقاعدہ سوگ منانا خلافِ شرع ہے،  نیز  ایک مرتبہ تعزیت کے بعد دوبارہ تعزیت کرنا بھی صحیح نہیں، لہٰذا عید کے دن میت کےعزیز و اقارب کے ہاں اس نیت سے جانا اور جمع ہونا  کہ پہلی عید  ہے، اور میت کے لیے دعا وغیرہ کرنا  جائز نہیں، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

اگر وفات کو تین دن ہوچکے ہوں تو معمول کے مطابق عید کی خوشی اور دیگر امور انجام دینے چاہییں، چالیسویں اور پہلی عید وغیرہ تک سوگ منانے کی روایت غیر اسلامی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مردوں کی تدفین اور تعزیت کرنے والوں کو رخصت کرکے حسبِ معمول اپنے کام کاروبار میں مشغول ہوجاتے تھے۔

تاہم اگر کسی کا فوتگی والے گھر سے قریبی رشتہ ہو اور وہاں  آنا جانا کثرت سے ہوتا ہو تو عید کے دن ان سے ملنے جانا جائز ہو گا، اس میں کوئی حرج نہ ہو گا بشرطیکہ اس میں سوگ کی نہ ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

و روى الحسن بن زیاد إذا عزى أهل المیت مرةً فلاینبغي أن یعزیه مرةً أخرى، كذا في المضمرات. و وقتها من حین یموت إلى ثلاثة أیام و یکره بعدها إلا أن یکون المعزى أو المعزى إلیه غائبًا فلا بأس به.

(هندیه ج:1 ص:167،کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون، الفصل السادس، ط:مکتبه رشیدیه)

 صحيح البخاري (2/ 78):

عن زينب بنت أبي سلمة، قالت: لما جاء نعي أبي سفيان من الشأم، دعت أم حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها، وذراعيها، وقالت: إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشراً».
ترجمہ: حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر شام سے پہنچی، تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے دن زرد رنگ (جو بطورِ  خوش بوعورتیں استعمال کرتی تھیں) منگوایا، اور اپنے چہرے اور ہاتھوں پر لگایا، اور فرمایا: میں اس سے مستغنی ہوں، (یعنی مجھے بناؤ سنگھار کی ضرورت یا شوق نہیں ہے، اس لیے میں یہ کام نہ کرتی) اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے شوہر کی وفات پر کہ اس میں چار ماہ دس دن سوگ منائے۔ 

صحيح مسلم (1/ 99):

" عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من ضرب الخدود، أو شق الجيوب، أو دعا بدعوى الجاهلية»".

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں ہے ہم میں سے وہ شخص جو گالوں کو مارے یا گریبان پھاڑے یا جاہلیت کی بات کرے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں