بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

( EFU ) ای ایف یو حمایہ تکافل کا شرعی حکم


سوال

’’ای ایف یو‘‘ کمپنی کی ’’ای ایف یو حمایہ‘‘ کے نام سے ایک سروس ہے جو کہ مختلف انویسٹ منٹس کرتی ہے . کیا اس کمپنی کے ساتھ معاملات کیے جا سکتے ہیں ؟ ’’ای ایف یو حمایہ ‘‘ کے مطابق ان کے معاملات اسلامی اصولوں کی روشنی میں وضع کردہ ہیں؟

جواب

 (EFU)’’ای ایف یو‘‘  ایک لائف انشورنس کمپنی ہے، اور اب اس نے (EFU)’’ای ایف یو حمایہ تکافل‘‘ کے نام سے ایک ونڈو کھولی ہے، اور اس کی بنیاد تکافل کے نظام پر رکھی ہے،   جمہور علماءِ کرام کے نزدیک  کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی  سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے  جو ”تکافل“ کے عنوان سے نظام  چلارہے ہیں ، اس نظام سے متعلق    اکثر جید اور مقتدر علماءِ کرام کی  رائے عدمِ جواز کی ہے۔

         تکافل کے نظام کو جائز قرار دینے والے  اس  کی بنیاد  وقف کے قواعد  پر قرار دیتے ہیں ، لیکن  اس نظام میں وقف کے  قواعد کی مکمل رعایت نہیں کی جاتی ،    ذیل میں  اس نظام کی چند بنیادی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے :

         1۔۔  مروجہ تکافل میں ابتداءً  وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں، اور اپنی ہی وضع کردہ  شرائطِ وقف کے تحت اپنے ہی موقوفہ مال سے  فوائد اٹھاتے ہیں ، جب کہ  نقود کا وقف بذاتِ خود  محلِ نظر ہے، اگر تعامل کی وجہ سے اسے درست مان بھی لیا جائے  تو نقود کا وقف کرنے والا  خود اپنی  وقف کردہ منقولی  شے (نقود  وغیرہ) سے نفع نہیں اٹھاسکتا،  یعنی منقولی اشیاء میں ”وقف علی النفس “ درست نہیں ہے۔

         2۔۔  دوسری خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ  یہاں پر عقد کی نسبت  کمپنی (شخصِ قانونی) کی طرف ہوتی ہے، جوکہ ایک فرضی اور معنوی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں  ہے، جب کہ عقد کرنے والوں کا عاقل ، بالغ ہونا ضروری  ہے، اور ظاہر ہے کہ شخصِ قانونی میں ان صفات کا پایا  جانا ممکن نہیں ہے،  جس کی بنا پر تمام معاملات حقیقت میں کمپنی کے ڈائریکٹر ہی سرانجام دیتے ہیں ، چناچہ وہ ڈائریکٹر جب ایک  شخصِ قانونی (وقف فنڈ) کو ”رب المال“ اور دوسرے شخصِ قانونی  (کمپنی)  کو ”مضارب“ بناتے ہیں ، اس حال میں کہ دونوں کہ متولی وہ خود ہوتے ہیں تو  نفس الامر اور حقیقت میں وہ خود عقد کے دونوں  پہلو ”رب المال“ اور ”مضارب“ بنتے ہیں ، اس لیے کہ ڈائریکٹر حضرات ہی  کمپنی اور  وقف فنڈ کی نمائندگی کرتے ہیں ، گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ  (وقف فنڈ کی طرف سے)  ہم مال مضاربت کے لیے دیتے ہیں ، اور (کمپنی کی طرف سے) ہم  مال مضاربت کے لیے وصول کرتے ہیں ، دوسری طرف عام  طور پر  ان ڈائریکٹرز ہی کو کمپنی کہا جاتا ہے،  نتیجۃً  ایک ہی فرد (حقیقی) خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب، جوکہ شرعاً درست نہیں ہے۔

 3۔۔ تیسری خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ  چندہ کی رقم وقف کی ملکیت ہے اور شریعت کی رو سے   اس رقم کا مالک کو واپس کرنا جائز نہیں ہے،  نہ کل کی واپسی نہ ہی جز کی واپسی،  بلکہ  اس رقم کو وقف کی طرح   صرف وقف  کے مصالح اور مقاصد میں خرچ کیا جاسکتا ہے،  ایسی کوئی صورت نہیں کہ متولی، وقف کی ملکیت   واقف  کو واپس کردے،  یا چندہ دہندہ اس کو واپس لے لے،  جب کہ تکافل میں چندے کی رقم چندہ دہندگان کو مختلف  ناموں سے واپس کی جاتی ہے، جس کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں  ہے۔

         4۔۔ چوتھی خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ اسلام کے نظامِ  کفالت کی بنیاد  خالص تبرع پر ہے،  جیسا کہ رفاہی اور خیراتی ادارے یہ کام انجام دے رہے ہیں، جب کہ مروجہ  تکافل میں پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان ہونے والا عقد،  عقدِ معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے،  تو جس طرح انشورنس  عقدِ معاوضہ ہونے کی وجہ سے  سود ، قمار اور غرر جیسے مہلک گناہوں کا مجموعہ تھا،  اسی طرح تکافل میں بھی یہی خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔

             لہذا کسی بھی مروجہ تکافل کمپنی  (بشمول  EFU لائف کمپنی )کے ساتھ بھی  کسی  قسم کا معاہدہ کرنا اور اس کا ممبر بننا شرعاً جائز نہیں ہے، اور اگر معاملہ کرلیا   ہوتو ختم کروالیا جائے، نیز تکافل کمپنی سے صرف اصل رقم وصول کی جاسکتی ہے، زائد  وصول ہی نہ  کی جائے،  اور اگر وصول کرلی ہو تو اس زائد رقم کو   بغیر ثواب کی نیت کے  غرباء اور فقراء میں تقسیم کردیا جائے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَل الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون} [المائدة: 90]

       ارشاد باری تعالی ہے:

{وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا } [النساء: 161]

شرح معاني الآثارمیں ہے:

" عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»".

(2/313، کتاب الکراھۃ، ط: حقانیہ)

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا،  وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

         مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءاً أيسرها أن ینکح الرجل أمه»".

(1/246، باب الربوا ، ط: قدیمی)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

             "عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".  (4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط : سعید)

         بدائع الصنائع میں ہے:

"(منها) أن يكون مما لاينقل ولايحول كالعقار ونحوه، فلايجوز وقف المنقول مقصوداً لما ذكرنا أن التأبيد شرط جوازه، ووقف المنقول لايتأبد؛ لكونه على شرف الهلاك، فلايجوز وقفه مقصوداً إلا إذا كان تبعاً للعقار، بأن وقف ضيعة ببقرها وأكرتها وهم عبيده فيجوز، كذا قاله أبو يوسف، وجوازه تبعاً لغيره لايدل على جوازه مقصوداً، كبيع الشرب ومسيل الماء، والطريق أنه لايجوز مقصوداً ويجوز تبعاً للأرض والدار، وإن كان شيئاً جرت العادة بوقفه، كوقف المر والقدوم لحفر القبور، ووقف المرجل لتسخين الماء، ووقف الجنازة وثيابها". (6 / 220،  فصل فی الشرائط التی ترجع الی الموقوف، کتاب الوقف، ط: سعید)

        العقود الدريه في تنقيح الفتاوى الحامديه میں ہے:

"وفي موضع آخر من الوقف من فتاوى الشلبي المذكور ما نصه: فإذا كان وقف الدراهم لم يرو إلا عن زفر، ولم يرو عنه في وقف النفس شيء فلا يتأتى وقفها على النفس حينئذٍ على قوله، لكن لو فرضنا أن حاكماً حنفياً حكم بصحة وقف الدراهم على النفس هل ينفذ حكمه؟ فنقول: النفاذ مبني على القول بصحة الحكم الملفق، وبيان التلفيق أن الوقف على النفس لايقول به إلا أبو يوسف، وهو لايرى وقف الدراهم، ووقف الدراهم لايقول به إلا زفر، وهو لايرى الوقف على النفس، فكان الحكم بجواز وقف الدراهم على النفس حكماً ملفقاً من قولين، كما ترى وقد مشى شيخ مشايخنا العلامة زين الدين قاسم في ديباجة تصحيح القدوري على عدم نفاذه، ونقل فيها عن كتاب توفيق الحكام في غوامض الأحكام: أن الحكم الملفق باطل بإجماع المسلمين. ومشى الطرسوسي في كتابه أنفع الوسائل على النفاذ مستنداً في ذلك لما رآه في منية المفتي، فلينظره من أراده اهـ".(1 / 109،  کتاب الوقف، ط : دار المعرفہ)

       فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر ما مر في مسألة البقرة اعتبار العرف الحادث، فلايلزم كونه من عهد الصحابة، وكذا هو ظاهر ما قدمناه آنفاً من زيادة بعض المشايخ أشياء جرى التعامل فيها، وعلى هذا فالظاهر اعتبار العرف في الموضع، أو زمان الذي اشتهر فيه دون غيره فوقف الدراهم متعارف في بلاد الروم دون بلادنا، وقف الفأس والقدوم كان متعارفاً في زمن المتقدمين ولم نسمع به في زماننا، فالظاهر أنه لايصح الآن، ولئن وجد نادراً لا يعتبر؛ لما علمت من أن التعامل هو الأكثر استعمالاً، فتأمل". (4 / 364، کتاب الوقف، ط: سعید)

         بدائع الصنائع  میں ہے:

"(أما) شرائط الانعقاد فأنواع: بعضها يرجع إلى العاقد، وبعضها يرجع إلى نفس العقد، وبعضها يرجع إلى مكان العقد، وبعضها يرجع إلى المعقود عليه، (أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلاً، فلاينعقد بيع المجنون والصبي الذي لايعقل؛ لأن أهلية المتصرف شرط انعقاد التصرف، والأهلية لاتثبت بدون العقل فلايثبت الانعقاد بدونه … والثاني: العدد في العاقد، فلايصلح الواحد عاقداً من الجانبين في باب البيع إلا الأب فيما يبيع مال نفسه من ابنه الصغير".

(5 / 135،  کتاب البیوع، ط: سعید)

         البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله : ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء، كما نقله في فتح القدير؛ ولقوله عليه السلام لعمر -رضي الله عنه-: «تصدق بأصلها لاتباع ولاتورث». ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لايتمكن من البيع، أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه، فلا يجوز للمتولي رهنه".

      (5 / 221،   کتاب الوقف، ط: دار الکتاب الاسلامی)

       فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا،ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں