بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے مقاصد، بچہ دانی نکلی ہونے کی صورت میں عدتِ طلاق کا حکم


سوال

طلاق یافتہ عورت کے لیے عدت کی مدت تین ماہواری اس لیے رکھی گئی ہے؛ تاکہ اگر وہ حمل سے ہو تو ظاہر ہو جائے، لیکن اگر کسی عورت کی بچہ دانی ہی نکلی ہوئی ہو تو کیا اس کے  لیے بھی عدت کے دن پورے کرنا ضروری ہے؟

جواب

طلاق یافتہ عورت کی بچہ دانی اگر کسی وجہ سے نکلی ہوئی ہو تب بھی اس پر عدت گزارنا لازم ہے، کیوں کہ عدت کا صرف ایک ہی مقصد نہیں ہیں، بلکہ عدت کے کئی مقاصد ہیں،  عدت کا ایک مقصد تو  استبراءِ رحم یعنی بچہ دانی کے خالی اور فارغ ہونے کا یقین ہونا ہے، کیوں کہ اس میں نسب کی حفاظت  ہے۔  عدت کا دوسرا مقصد رشتہ نکاح کی عظمت و فخامت کا اظہار ہے کہ یہ رشتہ نہ تو انتہائی آسانی سے بن سکتا ہے اور نہ ہی انتہائی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے، بلکہ مکمل طور سے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو نکاح کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا جاتا کہ جب چاہا نکاح کرلیا اور جب چاہا ایک شوہر سے نکاح توڑ کر فورا دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا جاتا۔ عدت کا تیسرا مقصد اس رشتہ کے منقطع ہونے پر ملال وحزن کا اظہار  ہے۔

اور ان مقاصد سے بڑھ کر اصل بات یہ ہے کہ عدت گزارنا اللہ تعالی کا حکم ہے، عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، اسے حیض آتا ہو یا وہ ایسی عمر میں ہو جس میں حیض نہ آتا ہو، ان تمام صورتوں میں عدت کے اَحکام اللہ تعالیٰ  نے قرآنِ کریم میں صراحتاً بیان فرمادیے ہیں، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں اور قرآنِ کریم کے منصوص اَحکام کی حکمت و مقصد سمجھ میں نہ آئے تو بھی اسے دل سے تسلیم کرلینا ہی شانِ بندگی ہے۔  نیز جب کسی عورت کو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوجائے تو وہ بچہ جننے کے قابل بھی نہیں رہتی، اس صورت میں بھی قرآنِ مجید نے اس کی عدت خود بیان کی ہے، اس سے بھی واضح ہوا کہ عدت کا مقصد صرف استبراءِ رحم نہیں ہے۔

واضح رہے کہ شدید عذر کے بغیر مستقل طور پر بچہ دانی نکلوانا جائز نہیں ہے، تفصیلی فتوی دیکھنے کے  لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ کریں:

بچہ دانی نکالنا

حجة الله البالغة (2/ 219):

"قال الله تعالى: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} إلى أخر الآيات.

اعلم أن العدة كانت من المشهورات المسلمة في الجاهلية، وكانت مما لايكادون يتركونه، وكان فيها مصالح كثيرة:

منها: معرفة براءة رحمها من مائه، لئلاتختلط الأنساب، فانّ النسب أحد ما يتشاح به، ويطلبه العقلاء، وهو من خواصّ نوع الإنسان، ومما امتاز به من سائر الحيوان، وهي المصلحة المرعية من باب الاستبراء.

ومنها: التنويه بفخامة أمر النكاح حيث لم يكن أمرًا ينتظم إلا بجمع رجال، ولاينفك إلا بانتظار طويل، ولولا ذلك لكان بمنزلة لعب الصبيان ينتظم، ثم يفك في الساعة.

ومنها: أنّ مصالح النكاح لاتتم حتى يوطنا أنفسهما على إدامة هذا العقد ظاهرًا، فإن حدث حادث يوجب فكّ النظام لم يكن بدّ من تحقيق صورة الإدامة في الجملة بأن تتربصّ مدّةً تجد لتربّصها بالًا، وتقاسي لها عناء."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 505):

"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية.

 (قوله: فالأولى إلخ) بيان لحكمة كونها ثلاثا مع أن مشروعية العدة لتعرف براءة الرحم أي خلوه عن الحمل وذلك يحصل بمرة فبين أن حكمة الثانية لحرمة النكاح أي لإظهار حرمته، واعتباره حيث لم ينقطع أثره بحيضة واحدة في الحرة والأمة، وزيد في الحرة ثالثة لفضيلتها."

فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 308):

"لأنّ العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح ... ثمّ كونها تجب للتعرف لاينفي أن تجب لغيره أيضًا، وقد أفاد المصنف فيما سيأتي أنها أيضًا تجب لقضاء حق النكاح بإظهار الأسف عليه، فقد يجتمعان كما في مواضع وجوب الأقراء، وقد ينفرد الثاني كما في صور الأشهر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں