ایک کمپنی ہے جس کا نام EBL pakisatan(ایزی بزنس لائف پاکستان)ہے اور اس میں کام کرنے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ پہلے اس جوائن کرناہوگا،جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے750 روپے جوائن فیس ادا کرنی ہوتی ہے اور وہی پوری زندگی کا سرمایہ بھی ہوتاہے ،اس کے بعد کمپنی میں اکاؤنٹ بن جاتاہے اور پھر یہ کرنا ہوتاہے کہ آگے ممبر بنانے پڑتے ہیں ،دوممبر بنانے پر روزانہ کمپنی کے طرف سے 300 روپے ملتے ہیں،پھر وہ دوممبر آگے اور دو دو ممبر بناتے ہیں ان کوبھی 300،300 روپے ملتے ہیں اور پہلے بندے کو 400 روپے ملتے ہیں ،اور جیسے جیسے اگلہ بندہ اور ممبر بناتے جائیں گے پہلے بندوں (ممبروں)کو ابتداء میں 300،پھر 400،پھر 800،پھر 1600،پھر 3200،پھر آخر میں 3600 تک روزانہ ملتے ہیں اور اس طرح بغیر کا کئیے روزانہ یہ رقم اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے،یاد رہیے کہ 3 ماہ تک صرف جوائیننگ کا مرحلہ ہوتاہے اس کے بعد پھر کمپنی والے آن لائن بزنس کرواتے ہیں اور اس کا نفع بھی الگ ملتاہے اور ساتھ ساتھ شروع میں کئے جانے والے جوائننگ سسٹم کی رقم بھی ملتی رہتی ہے،اب پوچھنایہ ہے کہ اس کمپنی کے کاروبار کی شرعاًکیا حیثیت ہے؟اور کیا اس جوائن کرنا یا اس میں کا م کرنا جائز ہے یانہیں؟
EBL (ای بی ایل) پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ” ای بی ایل (EBL: Easy business life)پاکستان“ ایک نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی ہے، اس کے بنیادی پلان(Basic plan) میں شامل ہونے کے لیے ابتداء میں 750 روپے جمع کرانے ہوتے ہیں، جسے یہ سرمایہ کاری کہتے ہیں، اور Silver پلان میں شامل ہونے کے لیے 3500 روپے اور Gold پلان میں شامل ہونے کے لیے 7000 روپے دینے ہوتے ہیں، اس کمپنی میں شامل ہونے کے بعد مزید دو افراد کو شامل کرنا پڑتا ہے اور پھر ان دولوگوں کو تیار کرنا ہوتا ہے،وہ مزید دو افراد کو تیار کریں، یوں یہ زنجیری سلسلہ چلتا ہے، اس طرح لوگوں کو شامل کرانے پر رقم ملتی ہے، اور آگے سب شامل ہونے والوں کا کمیشن پہلے والے شخص کو بھی ملتا رہتا ہےاور بعد ازاں مختلف انعامات بھی ملتے ہیں۔
اس کمپنی کا شرعی حکم یہ ہے کہ :
شریعت میں بلا محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔
لہذا جس معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اور وہ کام بھی جائز ہو تو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس طرح کسی سائٹ کی پبلسٹی کرنا کہ جس میں مرحلہ وارکمیشن ملتا رہے، جب کہ اس نے بعد والوں کی خریداری یا ان کو شامل کرانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اور اس میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہیں ہوتی ، بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔
مذکورہ تفصیل کے رو سے صورت مسئولہ میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر EBL (ای بی ایل) پاکستان کا ممبر بننا جائز نہیں ہے:
1:کمپنی کا بنیادی مقصد ممبر سازی ہے، خرید وفروخت مقصود نہیں ہے۔ اور شرعاً اس کی حیثیت کاروبار کی نہیں ہے، لہذا ممبر سازی اور کمیشن کو مستقل کاروبار کی حیثیت دے کر اس پر نفع کمانا جائز نہیں ہے۔
2: اس میں چین در چین کمیشن کا سلسلہ ہے، اور بعد والے تمام لوگوں کے کمپنی میں شامل ہونے پر پہلے والے شخص کو کمیشن ملتا رہتا ہے، اور جس کمپنی میں یہ خرابیاں ہوں، اس کا ممبر بننا جائز نہیں ہے۔
3: اس میں سرمایہ کاری کے عنوان سے جو رقم لی جاتی ہے ، تو چوں کہ یہ معاملہ شرعی اصولوں کے مطابق نہ شرکت کا ہے اور نہ مضاربت کا، لہذاکمپنی میں رجسٹرد ہونے کے لیے جو ابتداء میں رقم لی جاتی ہے ، وہ بھی ناجائز ہے۔
لہذا مذکورہ کمپنی سے معاملہ کرنا، اس میں رجسٹرڈ ہونا یا کسی اور کو رجسٹرد کرانا جائز نہیں ہے، اس کے بجائے کسی حلال روزگار کی کوشش کرنی چاہیے۔
شعب الإيمان میں ہے:
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم أيّ الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."
(التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء، 2/84، ط:دار الكتب العلمية)
شرح المشكاة للطيبی میں ہے:
"قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."
(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال،7/ 2112، مكتبة نزار مصطفى الباز)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
( کتاب الإجارہ، باب الإجارۃ الفاسدہ، مطلب فی أجرۃ الدلال،6/ 63،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100715
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن