بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

EBL نامی کمپنی میں رقم شامل کرکے کمائی کرنے کا حکم


سوال

انٹرنیٹ پر ایک EBL نام کی کمپنی ہے. جس میں کام کرنے کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پہلے اس کمپنی میں اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوگا اور اس اکاؤنٹ کو ایکٹیو کرنے کے لئے کمپنی کو ساڑھے سات سو روپے (750) دینے ہوں گے اور اکاؤنٹ ایکٹیو ہونے کے بعد کمپنی کی طرف سے ایک لنک ملتا ہے اور اس لنک کے ذریعے دوسرے لوگوں کو کمپنی میں جوائن کروانا ہوتا ہے، جب کوئی دو لوگ اس لنک کے ذریعے کمپنی جوائن کرتے ہیں اور دونوں ساڑھے سات سو ساڑھے سات سو روپے دے کر اپنا اکاؤنٹ ایکٹیو کرتے ہیں، تو پہلے شخص کو تین سو روپے کمیشن مل جاتا ہے اور پھر جب وہ دو لوگ اپنی اپنی لنک سے آگے دو دو لوگوں کو کمپنی جوائن کرواتے ہیں اور پھر ساڑھے سات سو روپے دے کر ان کا اکاؤنٹ ایکٹیو کرواتے ہیں تو پھر ان دونوں لوگوں کو تین تین سو روپے کمیشن ملتا ہے اور پہلے شخص کو دو سو روپے کمیشن ملتا ہے. اور پھر جب یہ چار لوگ اپنی اپنی لنک سے آگے دو دو لوگوں کو کمپنی جوائن کرواتے ہیں اور پھر ساڑھے سات سو روپے دے کر ان کا اکاؤنٹ ایکٹیو کرواتے ہیں تو پھر ان چار لوگوں کو تین تین سو روپے کمیشن ملتا ہے اور ان چار لوگوں کو جن دو لوگوں نے جوائن کروایا ہوتا ہے ان کو دو دو سو روپے کمیشن ملتا ہے اور ان دو لوگوں کو جس نے جوائن کروایا ہوتا ہے اس کو بھی دو سو روپے کمیشن ملتا ہے اور اس طرح چین بنتی چلی جاتی ہے اور جب بھی کوئی شخص دو لوگوں کو کمپنی جوائن کرواتا ہے اور انکا اکاؤنٹ ایکٹیو کرواتا ہے تو اس شخص کو کمیشن ملتا ہے اور ساتھ ساتھ اس سے پہلے والوں کو بھی کمیشن ملتا ہے،یہ کمیشن اس پہلے شخص کے لئے جائز ہے یا ناجائز؟ اور یہ کمیشن صرف اسی صورت میں ملے گا جب کوئی شخص کمپنی جوائن کرے گا اور ساڑھے سات سو روپے دے کر اپنا اکاؤنٹ ایکٹیو کرے گا اور اگر جوائن ہونے والا شخص اپنا اکاؤنٹ ایکٹیو نہیں کروائے گا تو کسی کو بھی کوئی کمیشن نہیں ملے گا۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں بلا  محنت  کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے  کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے  کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے،  لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔

لہذا  جس  معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس طرح    کسی   سائٹ کی پبلسٹی کرناکہ  جس میں چین در چین کمیشن ملتا رہے جب کہ  اس نے  بعد والوں  کی خریداری میں  کوئی عمل نہیں کیا ، اور اس میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہیں ہوتی ،  بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، یہ جائز نہیں ہےاور اسی طرح کسی کمپنی کا صرف کمیشن ہی کاکام کرنا کہ ایک شخص دوسرے کو اس کمپنی میں رقم شامل کرنے پرتیار کرلے اور جب وہ شخص رقم شامل کردے تو اس رقم سے پہلے شخص اور اسی طرح دیگر کو اس میں سے کمیشن دے دیاجائے اور ہر رقم شامل ہونے کے بعد اس کو پہلے والوں میں تقسیم کردیاجائے تواس طرح کام کرنا شرعاً درست نہیں ہوگا۔

حاصل یہ ہے کہ   کسٹمر کو لانے والے شخص کا اس پہلے کسٹمر کو لا کر کمپنی جوائن کروانے  پر  کمیشن کا لین دین تو جائز ہے، لیکن اس کے بعد چین در چین یہ سلسلہ چلنا کہ ہر بعد والے کسٹمر کا کمیشن بھی پہلے والے  شخص کو ملتا رہے یہ شرعاً جائز نہیں ہے،لہذا مذکورہ کمپنی  EBL میں رقم انویسٹ کرنا اور کسٹمرز کوکمپنی میں  رقم شامل کرنے کے لیے تیار کرنا اور اس پر پرافٹ لینا شرعاً جائز نہیں۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."

(كتاب الإيمان،التوكل بالله عزوجل و التسليم لأمره تعالي في كل شيئ،434/2،ط:مكتبة الرشد،رياض)

ترجمہ:"آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔"

علامہ طیبی رحمہ اللہ نے  شرح مشکوۃ میں مبرور کایہ  معنی بیان کیا ہے:

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع،باب الكسب و طلب الحلال،2112/7،ط:مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة )

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،63/6،ط: سعيد)

وفيه أيضا:

" قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل، وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل، فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي."

(کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،47/6،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں