بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متحدہ عرب امارات میں مقیم اپنے بیوی بچوں کا صدقہ فطر کس حساب سے دیا جائے؟


سوال

 ہم متحدہ عرب امارات میں رہتے ہیں اور ہمارے بالغ اور نابالغ بچےاور بیوی جو پاکستان میں ہیں ان کا صدقہ فطر ہم نے کس حساب سے دینا ہے، درھم یا پاکستانی روپے سے  دینا ہے؟

جواب

صدقہ فطر کی مقدار گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم ہے اور کھجور، جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کا اعتبار ہوگا، لہذا  اگر آپ  متحد عرب میں مقیم ہیں اور عید الفطر بھی وہیں کرنی ہے تو  آپ پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر  متحد عرب امارات کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہے،  لہذا  آپ  اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر بھی وہیں کی قیمت کے حساب ادا کردیں  خواہ آپ یہ قیمت عرب امارات میں ادا کریں یا آپ کی اجازت سے پاکستان میں ادا کی جائے۔

باقی آپ کی اہلیہ اور آپ کے بالغ بچے جو کہ پاکستان میں ہیں، ان پر ان کا اپنا صدقہ فطر  پاکستان کے نرخ کے مطابق لازم  ہے، لہذا وہ خود پاکستان میں پاکستان کی قیمت کے حساب سے دے سکتے ہیں،  اور اگر آپ کی ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتے ہیں تو  ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه.

(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزكاة والعشر، ج: 2، صفحہ: 355، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات.

(ج:1، صفحہ: 190، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں