بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ استطاعت کا اہلیہ کو بتائے بغیر دوسری شادی کرنا


سوال

میں الحمدلله  شادی شدہ ہوں اور میرے پانچ بچے بھی هيں، الحمدللہ میں اپنی ازدواجی زندگی میں خوش بھی  ہوں،  لیکن میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن میری اہلیہ نہیں مانتی، اور صاحبِ حیثیت بھی ہوں،  میں اگر دوسری شادی اہلیہ کو بتائے  بغیر کر لوں تو میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟  اور اگر شادی کروں تو وہ کس قسم کی عورت سے کروں؟ بیوہ  طلاق یافتہ یا کنواری اور کتنی عمر والی کے ساتھ کروں میری عمر 47 سال  ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص دوسری شادی کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ  بیویوں میں عدل وانصاف اور (نان ونفقہ اور شب باشی میں) برابری بھی کرسکتا ہے تو اس کے لیے  دوسری شادی کرنا جائز ہے،  دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی  شرعاً ضروری نہیں ہے۔

           قرآنِ کریم میں ہے:

{فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ} [النِّسَآء:۴]

ترجمہ: اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلو ، دو دو عورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے۔  (بیان القرآن)

لیکن   مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ ان کے درمیان برابری اور انصاف کر سکے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا﴾ [النساء:3]

ترجمہ:اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو، دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔ (بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ ان کے درمیان برابری اور انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

"سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل". ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

مذکورہ بالا تفصیل کے پیشِ نظر  اگر  سائل دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہے اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتا ہے  تو   اس کے لیے  دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے،  پہلی بیوی سے اجازت لیناضروری  تو نہیں ہے،  تاہم دوسری شادی سے پہلے اگر وہ  اپنی اہلیہ کو اعتماد میں لے لے  تو   یہ بہتر ہے ،تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے  اور دوسری شادی کامقصدپوری طرح  حاصل ہو۔

دوسری شادی کے لیے  عورت  کے کنواری یا طلاق یافتہ ہونے  یا عمر کی شرعًا کوئی قید نہیں ہے،  البتہ فطری  شرافت ،  دِین داری  اور ذہنی ہم آہنگی،اور موافقت   جیسےامور کا خیال رکھنا چاہیے، تاہم اگر کسی بے سہارا  (بیوہ  یا مطلقہ وغیرہ)  کا سہارا بنتے ہوئے  اس سے نکاح کریں تو اس کا اجر وثواب  ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر".

 (3/ 48،  کتاب النکاح، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لايعدل بينهما لايسعه ذلك، وإن كان لايخاف وسعه ذلك".

(1/ 341،  کتاب النکاح،  الباب الحادی عشر في القسم، ط: رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144208200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں