بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دلہن کا فون پر نکاح قبول کرنا


سوال

1۔  ایک شخص خود اپنا نکاح پڑھائے اور اپنا نکاح پڑھانے والے کے پاس دو گواہ بھی موجود ہوں اور جس لڑکی سے نکاح کر رہا وہ فون پر ہی قبول کرے تو کیا ایسا نکاح کرنا جائز ہے ؟

2۔ اگر یہ صورت جائز ہے تو اس کی وضاحت کر دیجیے ، وگرنہ اس کی متبادل جائز صورت  بیان  فرما دیں۔

جواب

1۔ نکاح درست ہونے کے لیے دولہا و دولہن کا دو مسلمان مردوں یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان خواتین کی موجودگی  میں  ایک ہی مجلس میں نکاح کا ایجاب و قبول کرنا شرعا ضروری ہے ، پس صورت مسئولہ میں دولہن  نے چونکہ فون پر  قبول کیا تھا،  لہذا ایسا نکاح شرعا منعقد نہیں ہوا، اور نکاح کا اعادہ کرنا ضروری ہے۔

2۔ دولہا و  دولہن اگر ایک جگہ موجود  نہ ہوں تو نکاح صحیح  ہونے کے لیے  دولہن کے وکیل کا مجلس نکاح میں موجود ہونا، اور گواہان کی موجودگی میں دولہا اور دولہن کے وکیل کے لیے نکاح کا ایجاب و قبول کرنا شرعا ضروری ہوگا، یاعورت مرد کو وکیل بنادے کہ وہ خود اس کے ساتھ نکاح کرے پھر یہ مرد دو گواہوں کی موجودگی میں عورت کی بات کو بیان کرکے قبول کرے تو بھی نکاح ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولا أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح، ١ / ٢٦٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507102211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں