بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان یا مکان کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

دکان یا مکان کرایہ  پر دینا اور اس کرایہ  کو استعمال کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دکان یامكان   کرایہ پر دینا اور اس کا کرایہ استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(تصح) (إجارة حانوت) أي دكان ودار بلا بيان ما يعمل فيها) لصرفه للمتعارف (و) بلا بيان (من يسكنها) فله أن يسكنها غيره بإجارة وغيرها كما سيجيء (وله أن يعمل فيهما) أي الحانوت والدار (كل ما أراد) فيتد ويربط دوابه ويكسر حطبه ويستنجي بجداره ويتخذ بالوعة إن لم تضر ويطحن برحى اليد وإن به ضر به يفتى قنية (غير أنه لا يسكن) بالبناء للفاعل أو المفعول (حدادا أو قصارا أو طحانا من غير رضا المالك أو اشتراطه) ذلك (في) عقد (الإجارة) ؛ لأنه يوهن البناء فيتوقف على الرضا.
(وإن اختلفا في الاشتراط فالقول للمؤجر) كما لو أنكر أصل العقد (وإن أقاما البينة فالبينة بينة المستأجر) لإثباتها الزيادة خلاصة."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:6، ص:27، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں