بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے شخص کے گردے لینے اور لگوانے کا حکم


سوال

میرے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ڈائیلائسس پر ہوں جو کہ ہفتے میں تین دن کروانا پڑتا ہے یہ گردے کے افعال کو صحیح طریقے سے انجام دینے کا ایک عارضی طریقہ علاج ہے ،ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے  کہ اگر میں خونی رشتہ داروں یعنی بھائیوں یا بہنوں میں سے کسی ایک کا گردہ عطیہ کرو اسکوں تو وہ میرے خراب گردے کی جگہ اس کا ٹرانسپلانٹ کر دیں گے جس کے بعد امکان ہے کہ میرا ایک یا دونوں گردے صحیح کام کرنے لگیں بصورت دیگر میری زندگی کوسنگین خطرات لاحق ہیں کیونکہ ڈائیلیسسز ایک  طریقہ علاج ہے، میرے بھائی اور بہن دونوں اپنا گردہ دینے کے لیے رضامند ہیں ،لیکن اس میں قباحت  یہ ہے کہ میرے بھائی اور بہن شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض ہیں ان کی عمر بھی پچاس سال سے زائد ہے جس کی وجہ سے وہ گردہ عطیہ نہیں کرسکتے۔

اب میرےپاس دوسرا آپشن ہے کہ میں کسی اور سے ایک یا دو گردے قیمتا خرید لوں، مجھے شریعت کی روشنی میں رہنمائی فراہم کریں کہ درجہ بالا بیان کردہ صورت میں کیا میں گردہ قیمتا خرید سکتا ہو ں؟

جواب

صورت مسؤلہ میں سائل کا کسی اور سے ایک یا دو گردے  معاوضہ (قیمت) کے ساتھ ہو یا بغیر معاوضہ (بغیرقیمت ) کےحاصل کرنا   جائز نہیں۔کیونکہ ایک  انسان کےجسم سے گردہ نکال کردوسرےانسان میں منتقل  کرنے کی صورت  میں بہت سےغیرشرعی امور کاارتکاب لازم آتاہے،مثال کے طورپر اس مقصد کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ۔نیز کسی زندہ جاندار(جس میں انسان بھی شامل ہے) کے جسم سے اگر کوئی جز  الگ کردیا جائے وہ  مردار اور ناپاک کے حکم میں ہوجاتا ہے،  دوسرے كاگرده لگانے کی وجہ سے پوری عمر ایک ناپاک چیز سے انسانی   جسم ملوث رہے گا،نيزکسی چیز کوفروخت یاہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے  کے لیے یہ شرط ہے وہ چيز  مال ہو، اور دینے  والے کی مملوكه  ہو، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔ انسان کو اپنے اعضاء میں نفع اٹھانےکاحق تو حاصل ہے، مگر  ملکیت کاحق  حاصل نہیں ، جس پر انسان کو  مالکانہ حق  حاصل نہ ہو  انسان اسے کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا،نیزانسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو،نیزانسان قابلِ احترام ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے  الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔      یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیش ِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

حدیث شریف میں ہے: 

"عن ابن عباس قال: كان رسول ال له-صلي الله عليه وسلم- إذا بعث جيوشه قال: "اخرجوا بسم الله، تقاتلون في سبيل الله، من كفر بالله، لا تغدروا، ولا تغلوا، ولا تمثلوا، ولا تقتلوا الولدان، ولاأصحاب ‌الصوامع."

 (مسند أحمد،من مسند بني هاشم،3/ 218 ،ط:دار الحديث)

سنن أبي داود میں ہے:

"عن أبي واقد، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة."

(كتاب الصيد،باب في صيد قطع منه قطعة،480/4 ،ط:دار الرسالة العالمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد........ ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع."

 (كتاب الهبة ،الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها،4/ 374،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرائطها كون الموصي أهلا للتمليك) فلم تجز من صغير ومجنون ومكاتب إلا إذا أضاف لعتقه كما سيجيء (وعدم استغراقه بالدين) لتقدمه على الوصية كما سيجيء (و) كون (الموصى له حيا وقتها) تحقيقا أو تقديرا ليشمل الحمل الموصى له فافهمه فإن به يسقط إيراد الشرنبلالي (و) كونه (غير وارث) وقت الموت (ولا قاتل) وهل يشترط كونه معلوما. قلت: نعم كما ذكره ابن سلطان وغيره في الباب الآتي (و) كون (الموصى به قابلا للتملك بعد موت الموصي)..."

(6 /649، كتاب الوصایا،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."

( کتاب الودیعة،4 /338، ط:رشیدية)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"‌الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(كتاب الكراهية ،الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات،354/5،  ط: رشیدية)

            فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں