بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی


سوال

میری  ایک  شادی ہوئی ہے  اور میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں  اور اس کے اخرا جات پورے اٹھانے کی حیثیت رکھتا ہوں اور پہلی بیوی کہہ رہی ہے کہ تم دوسری شادی مت کرو ، لیکن میں کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں کیسے راضی کرو ں اپنی بیوی کو؟اور کوئی گناہ کی بات تو نہیں ہوگی مجھ پر؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ [النساء:3]

ترجمہ: اور  اگر  تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو  اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو  دو  دو عورتوں  سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔

( بیان القرآن )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب وہ انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

"سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل". ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔"

مذکورہ بالا تفصیل کے پیشِ نظر  اگر آپ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتے ہیں اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتے ہیں تو  آپ کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے،  اس کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینا یا اس کو راضی کرنا ضروری   نہیں ہے، تاہم دوسری شادی سے پہلے اگر اپنی اہلیہ کو راضی کرلیں تو بہتر ہے، تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔  اور دوسری شادی کامقصدپوری طرح  حاصل ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں