بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں


سوال

میری انگلینڈ میں  شادی ایک ہوئی ہے، جس کے ساتھ میں رہتا ہوں، مگر پاکستان میں میں ایک خاتون سے ایک  اور شادی کرنا چاہتا ہوں ،جس کے ساتھ پہلے سے تعلق تھا،  لیکن اب میں ناجائز تعلق نہیں رکھنا چاہتا اور پاکستان میں وہ عورت بھی کہتی ہے  کہ مجھے گھر یا اور کچھ نہیں چاہیے صرف نکاح کر لو اور وہ عورت بیوہ ہے،  تو کیا   اسلام مجھے  اس کی اجازت دیتا ہے؟

  میں اپنی پہلی بیوی کو نہیں بتاسکتا تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

دوسرے نکاح کے  لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا یا اسے بتانا شرعًا ضروری نہیں ہے، البتہ شریعتِ مطہرہ نے  جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے، وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے،  یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے،  اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اشیاء ،تحفہ تحائف  وغیرہ دے ، اتنا ہی دوسری بیوی  کو بھی دے ؛   پس جو شخص اپنی بیویوں  کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدات احادیث میں  وارد ہوئی ہیں، اس خے بالمقابل بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

مشکاة المصابیح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي".

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔

دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له إمرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج".

(مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، ط: رشيدية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا".

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل، ٣ / ١٤٥٨، رقم الحديث: ١٨٢٧، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ

( كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، ١/ ٥٤٤، ط: دارالفكر)

وفيه أيضاً:

"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع".

(الباب السابع عشر في النفقات، مطلب في الكسوة، ١/ ٥٥٥،  ط: دار الفكر)

و فيه أيضاً:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها...\" الخ

( الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني ١/ ٥٥٦، ط: دار الفكر)

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل قائم کر سکتے ہیں، تو اس صورت میں آپ کے  لیے دوسرا نکاح کرنا جائز ہوگا، بہر صورت ناجائز تعلق رکھنا حرام ہوگا، اور ماضی  میں سرزد گناہ پر صدق دل سے توبہ و استغفار لازم ہوگا، نیز اگر آپ  ایک سے زائد بیویوں کے درمیان تفصیل بالا کے مطابق عدل قائم کرنے کے اہل نہ ہوں تو اس صورت میں نکاح کی اجازت نہ ہوگی، اور مذکورہ خاتون سے مکمل طور پر قطع تعلق کرنا ضروری ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں