بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ عدت شہر سے گاؤں منتقل ہونا


سوال

میرے  والد صاحب فوت  ہو گئے ہیں  بڑھاپے کی حالت  میں ،ہم  گاؤں میں رہتے تھے، میری امی ہمارے ساتھ گاؤں میں رہتی ہیں، اب ہم  شہر جانا چاہتے  ہیں، گاؤں میں سہولت بھی نہیں اور حالات بھی ٹھیک نہیں تو کیا امی کو عدت میں ساتھ  لے جا سکتا ہوں؟  یا عدت گاؤں میں ہی گزاریں  گی؟ 

جواب

عورت  کے  لیے طلاق یا شوہر کے انتقال کی صورت میں شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے، عام حالات میں دورانِ عدت وہاں سے کسی اور جگہ رہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے، لہذا جب تک ممکن ہو اس وقت تک شوہر کے گھر سے منتقل نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر کسی شدید عذر کی وجہ  سے گاؤں سے شہر منتقل ہونا پڑے مثلاً حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے جان اور مال  کی ہلاکت کا خطرہ ہو،یا والدہ کی ضروریات کا کوئی انتظام نہ ہوسکتا ہو ،والدہ کو خدمت کی ضرورت ہو اور  کوئی خدمت کرنے والا نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں والدہ کو اپنے ساتھ شہر میں   منتقل کرنے کی  اجازت ہوگی۔  تاہم منتقلی کے بعد بھی   عورت پر دوسرے گھر میں عدت کی وہی پابندیاں  لاگو ہوں گی جو پہلے میں لاگو تھیں۔ اور اگر گاؤں میں بھی خدمت کرنے والا موجود ہو، اور ضروریات بھی پوری ہوجاتی ہوں تو وہیں عدت پوری کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں