بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاقوں کے بعد بیوی کو لفظ حرام کہنا


سوال

میرے شوہر نے آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے غصے کی حالت میں مجھے طلاق دی تھی، جن کے الفاظ یہ تھے: "میں تجھے طلاق دیتا ہوں،میں تجھے طلاق دیتا ہوں" اور اس کے بعد ہماری صلح ہوگئی تھی، فوراً رجوع بھی ہو گیا تھا، اُنہوں نے معافی مانگ لی تھی اور میں نے عدت بھی نہیں کی تھی اور اب 22 مئی بروز اتوار کو انہوں نے غصے کی حالت میں کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے، اُن کا کہنا یہ ہے کہ میں نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے تو اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ طلاق ہو گئی یا نہیں ؟

جواب

لفظ ’’حرام‘‘  عرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے،یعنی اس لفظ کے استعمال سے بغیر نیت کے بھی طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سوال میں جو تفصیل ذکر کی گئی اس تفصیل   کی رُو سے   بیوی پر تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،   نکاح ختم ہو گیا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے،  اب ساتھ رہنا اور رجوع کرنا جائز نہیں۔ بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت)  گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

 (کتاب الطلاق، جلد:3، صفحہ:252، طبع: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں