بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو شہروں میں رہائش کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

زید کا ایک   گھر  کراچی میں ہے، دوسرا ملتان میں ہے، اب زید نماز کیسے ادا کرے گا ؟مثال کے طور پر زید ملتان گیا ،15 دن کے لیے  اب نماز کا کیا حکم ہوگا؟ کیوں کہ دونوں  جگہ آتا جاتا ہے۔

جواب

 اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ سے ترک ِ وطن کی بنیاد پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو   اس کا پہلا وطن اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے اس کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، مثلاًاس کی زمینیں اور مکانات وغیرہ وہاں موجود ہیں تو دونوں  جگہیں اس کے وطن اصلی شمار ہوں گے ، جب وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگا، اور درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر زید نے  مستقل طور پر ملتان سے تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  کراچی میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ ملتان  بھی ہمارا وطن ہے، تو  وہ وہاں مکمل نماز پڑھے گا ، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں، لیکن اگر  انہوں نے یہ نیت کی ہے کہ اب  ملتان ہمارا وطن اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت کراچی  منتقل ہوگئے ہےاور اب وہاں رہنے کا ارادہ نہیں ہے،تو اب یہ  پندرہ دن سے کم کے لیے ملتان جائے  گا تومسافر شمار ہوگا  اور قصر نمازپڑھے گا ۔

البحر الرائق میں ہے :

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر اهـ.

وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر".

(باب صلاۃ المسافر،ج:2،ص:147،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں