بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

دو مختلف مجلسوں میں کیے گئے ایجاب و قبول سے نکاح کا حکم


سوال

ایک نکاح کی صورت یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکا دونوں آمنے سامنے نہ تھے، انہوں نے اپنا نکاح کرنا چاہا، دونوں الگ الگ ممالک میں ہونے کی وجہ سے ایک جگہ جمع نہ ہو سکے، ٹیلی فون پر نکاح کیا گیا، جس کی صورت یہ تھی کہ ایک ملک میں لڑکی اور دوسرے ملک میں لڑکا تھا، لڑکے کے پاس دو گواہ موجود تھے، لڑکے نے دو گواہوں کی موجودگی میں ٹیلی فون پر کہا کہ فلاں بنت فلاں کو میں نے اپنے نکاح میں قبول کیا اور لڑکی نے فون پر کہا کہ میں نے فلاں بن فلاں کو اپنے نکاح میں قبول کیا، ٹیلی فون پر اس طرح نکاح ہوا، لڑکے کے پاس دو گواہ تھے اور لڑکی کے پاس کوئی نہ تھا۔

اس صورت میں نکاح کی کیا حیثیت ہو گی؟

جواب

سوال میں نکاح کی جو صورت ذکر کی گئی ہے یہ نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوا، دونوں  (لڑکا اور لڑکی) ایک دوسرے کے لیے بدستور اجنبی ہیں؛ اس لیے کہ نکاح کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکا لڑکی کے  ایجاب و قبول کے الفاظ  ایک مجلس میں ہوں اور سوال میں ذکر کردہ صورت میں ایجاب و قبول الگ الگ مجلسوں میں ہوا ہے، لہذا از سرنو  نکاح ضروری ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما".

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں