بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو مقامات پر رہائش والے کی نماز کاحکم، قصر نماز میں سنت کاحکم


سوال

۱۔میرا گھر پشاور میں ہے،ابھی بھائی کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے افغانستان آگیا ہوں، یہاں پر بھی ہمارا گھر ہے، لیکن پوری فیملی پشاور میں مقیم ہے،تو میرا سوال یہ ہے کہ میں قصر نماز پڑھوں یا پوری نماز ادا کروں؟

۲۔ قصر نماز میں سنتیں پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

۱۔ صورتِ مسئولہ میں پشاور اور افغانستان میں رہائشی علاقہ دونوں  مقام ہی سائل کے وطنِ اصلی ہیں ،لہٰذا سائل دونوں مقا مات پر پوری نماز اداکرے گا،البتہ اگر ان دونوں مقامات کے درمیان کا فاصلہ سوا ستتر کلو میٹریااس سے زائد بنتاہے،تو راستے میں قصر نماز اداکرے گا۔

۲ قصرنماز میں سنتیں پڑھنے کے حوالے سے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ اگر سفر جاری ہو اورجلدی ہو یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہو، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہو، یا خوف ہو تو   پھر صرف فرائض کی ادائیگی کافی ہے، اور فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر  کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھی جائیں گی۔ اور اگر سفر جاری ہو اور  کسی مقام پر نماز کے لیے ہی رکے ہوں اور جلدی نہ ہو  اور امن ہو تو سنتوں  کا  پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ بہرحال اس صورت میں بھی سنت کا حکم وجوب کا نہیں ہے، بلکہ پڑھنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر مسافر کسی شہر یا بستی میں ٹھہرا ہو  چاہے، پندرہ دن سے کم ہی قیام ہو تو راجح قول کے مطابق سنتیں  پڑھنی چاہییں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں سنتیں پڑھنا ثابت ہے۔

"البحر الرائق "میں ہے:

" وقيد بالفرض؛ لأنه لا قصر في الوتر والسنن واختلفوا في ترك السنن في السفر، فقيل: الأفضل هو الترك ترخيصاً، وقيل: الفعل تقرباً، وقال الهندواني: الفعل حال النزول والترك حال السير، وقيل: يصلي سنة الفجر خاصةً، وقيل: سنة المغرب أيضاً، وفي التجنيس: والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها شرعت مكملات والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لايأتي بها؛ لأنه ترك بعذر اهـ".

(كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،ج:2،ص:141،ط:دار الكتاب الإسلامي)

"مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح" میں ہے:

"وإذا لم ينقل أهله بل استحدث أهلا في بلدة أخرى فلا يبطل ‌وطنه ‌الأول وكل منهما وطن أصلي له".

(كتاب الصلاة،باب المسافر،ص:165،ط:المكتبةالعصرية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں