بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈھول باجے والے ولیمہ میں شرکت کا حکم


سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:

کہ ایک شادی میں ڈھول باجا وغیرہ ہوتا ہے اور پھر ولیمہ تیار کیا جاتا ہے اس ولیمے کا کھانا کیسا ہے؟  اگر مسجد کا امام اس میں شرکت نہ کرے تو عجیب عجیب باتیں سننی پڑتی ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو شادی غیر شرعی امور (مثلاً ڈھول/ باجے دیگر موسیقی وغیرہ ) پر مشتمل ہو تو ایسی شادی میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور(ڈھول/ باجے) کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں  اس تقریب میں شرکت جائز نہیں ہے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدیٰ ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے؛ تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

 اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے۔

اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدیٰ ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين إما أن يكون عالما أن هناك ذاك وإما إن لم يكن عالما به فإن كان عالما فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي - عليه الصلاة والسلام - «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها» وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولا تترك السنة لمعصية توجد من الغير ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل هذا إذا كان المدعو إماما يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى وإن لم يكن عالما حتى ذهب فوجد هناك لعبا أو غناء فإن أمكنه التغيير غير وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب وقال لا بأس بأن يقعد ويأكل قال أبو حنيفة - رضي الله عنه - ابتليت بهذا مرة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلا يترك لأجل معصية توجد من الغير هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل وقيل هذا إذا لم يكن إماما يقتدى به فإن كان لا يمكث بل يخرج لأن في المكث استخفافا بالعلم والدين وتجرئة لأهل الفسق على الفسق وهذا لا يجوز وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق ولو صار لما صبر".

(کتاب الاستحسان، ج:5، ص:128، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں