بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیبٹ کارڈ پر ملنے والا ڈسکاؤنٹ


سوال

بینک کے حوالے سے سوال پوچھنا ہے،بینک ہمیں ڈیبٹ کارڈ پر 20 سے 25 فیصد ڈسکاؤنٹ دیتا ہے وہ جائز ہے لینا یا سود کے زمرے میں آتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بینک کی جانب سے ڈیبٹ کارڈ پر ملنی والی مراعات (ڈسکاؤنٹ وغیرہ)کی مختلف صورتیں ہیں،ان سب کے احکامات درج ذیل ہیں:

1۔اگر یہ رعایت (ڈسکاونٹ) بینک کی طرف سے ملتی ہوتو اس صورت میں اس رعایت کا حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت (ڈسکاونٹ)بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے مقروض سے  حاصل ہوتا ہے وہ سود کے حکم میں ہوتا ہے۔

2۔اگر رعایت(ڈسکاونٹ) کی رقم بینک بھرتی ہے تو وہ سود کی رقم ہے،اور سود کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

3۔اگر یہ رعایت(ڈسکاونٹ)  اس ادارے کی جانب سے ہو جہاں سے کچھ خریدا گیاہے یاوہاں کھاناکھایاگیاہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔

4۔ اگر رعایت(ڈسکاونٹ) دونوں کی طرف سے ہو تو بینک کی طرف سے دی جانے والی رعایت درست نہ ہوگی۔

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(کتاب المساقات،3/1219، دار احیاء التراث ، بیروت)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

‌‌"[مطلب كل قرض ‌جر ‌نفعا حرام].

(قوله كل قرض ‌جر ‌نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.

قلت: وهذا هو الموافق لما سيذكره المصنف في أول كتاب الرهن وقال في المنح هناك، وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي، وكان من كبار علماء سمرقند إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم."

(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج5،ص166،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں