بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دارالہجرۃ میں اقامت کےبعد وطن اصلی کےاموال پرقربانی کاحکم


سوال

 ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا گھر پاکستان دارالہجرۃ میں ہے،جب کہ ان کی جائیداد زمین وغیرہ افغانستان وطن اصلی میں ہے،اور پاکستان میں ان کے پاس اتنی جائیداد وغیرہ نہیں ہے جس سے یہ لوگ صاحب نصاب بن جائیں ،جب کہ کچھ لوگوں کی زمینںیں ایسی ہیں  کہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان  پر نہ کوئی کاشت کی جاسکتی ہےاور نہ اس کی کوئی اچھی خاصی قیمت ہے،نہ زمینوں کےمالکان ابھی اس کو  بیچ سکتے ہیں کیوں کہ مستقبل میں احتیاج کا خدشہ باقی رہتا ہے اور نہ خود آباد کرسکتے ہیں ،کیوں کہ وہاں ضروریات زندگی معدوم ہیں ،تو اب دریافت طلب امر یہ کہ آیا یہ اشخاص اپنی زمین وغیرہ کی وجہ سے صاحب نصاب شمار ہوں گے؟اوران پرقربانی واجب ہوگی یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی ہراس عاقل بالغ مقیم مسلمان مرد اورعورت پرواجب ہےجونصاب کامالک ہو یااس کی ملکیت میں ضرورت سےزائد اتناسامان ہو کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کےبرابر ہو،یعنی ساڑھےسات تولہ سونایاساڑھےباون تولہ چاندی یااس کی قیمت کےبرابر رقم ہو،یارہائش کےمکان سےزائد مکانات یاجائیدادیں وغیرہ ہوں یاضرورت سے زائد گھریلوسامان ہو،جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کےبرابرہویامال تجارت شئیرز وغیرہ ہوں تواس شخص پرقربانی لازم ہوگی،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃًمذکورہ اشخاص پاکستان میں صاحب نصاب نہیں ہیں،اورافغانستان میں جتنی بھی زمینیں اورجائیدادوغیرہ ہیں،اوراس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونایاساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کےبرابر ہوں یا اس سے زائد ہوں ،اوروہ ضرورت اصلیہ سےزائدبھی ہوں،تو ایسی صورتِ میں  مذکورہ اشخاص صاحب نصاب شمارہوں گے،اوران پرقربانی پاکستان میں کرنابھی لازم ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى) خانية....(قوله وشرائطها) أي شرائط وجوبها، ولم يذكر الحرية صريحا لعلمها من قوله واليسار، ولا العقل والبلوغ لما فيها من الخلاف....(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا... فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره، وإن كان له عقار ومستغلات....ومتى فضل من ذلك قدر مائتي درهم فصاعدا فعليه الأضحية، وإن كان العقار وقفا عليه ينظر إن كان قد وجب له في أيام الأضحى قدر مائتي درهم فصاعدا فعليه الأضحية وإلا فلا، كذا في الظهيرية."

(كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ج:5، ص:292، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں