بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

کیا کرپٹو کرنسی حلال ہے؟ کیا اس کی خرید و فروخت حلال ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کرپٹو کرنسی ایک فرضی چیز ہے،اس میں حقیقی زر(کرنسی) کے بنیادی اوصاف اور شرائط موجود نہیں ہیں،یہ محض  کمپیوٹر پر ظاہر ہونے والے کچھ اعداد ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے ،نیز دنیا کے بیشتر ممالک میں  کرپٹو کرنسی کو اب تک قانونی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت شرعا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الكشف الكبير المال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجةوالمالية إنما ثبت بتمول الناس كافة أو بتقوم البعض الخ."

(کتاب البیع،ج:5،ص:277،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۰۱،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں