بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو کرنسی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال

مفتی صاحب میراسوال کرپٹوکرنسی کے حوالے سے ہے، آج کل انٹرنیٹ میں اس کی مارکیٹنگ بہت ہے ، یہ ٹریڈنگ ایپ ہے ،جس میں لوگ ڈالرخریدکرجب ریٹ اوپر جاتےہیں تووہ سیل کرکے اپنا(profit) کماتےاورآگے اور(invest) کرتے ہیں،اوراس میں نفع اورنقصان کے ذمہ داربھی خود ہوتےہیں ، میں یہ پوچھناچاہتاہوں ، کیایہ کمائی حلال ہے یاحرام ؟ کیوں کہ یہ ایک طریقہ سے(ganbling) جیسانظرآتاہے ، لیکن کچھ لوگ(log term) (invest) کرتےہیں ، اوراس سے پیسے کماتے ہیں، کچھ ملکوں میں یہ حلال ہے ، اگریہ حلال ہے توکوئی شرائط کے طورپر ہے ؟ میں ابھی اس پر(resarch) کررہاہوں ، آپ اس کی تفصیل فرمادیں۔(bitcoin forex) اوربھی بہت سی ایپس ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ آج کل جو عالمی مارکیٹ میں کرپٹو کرنسی رائج ہے وہ ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں؛  لہذا کرپٹو کرنسی  کی خرید و فروخت کے نام سے جو الیکٹرونک  مارکیٹ میں کاروبار چل رہا ہے وہ  حلال اور جائز  نہیں ہے،اس کرنسی میں حقیقت میں کوئی مبیع یعنی مادی چیز نہیں ہوتی اور  اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاونٹ  میں کچھ  حساب کتا ب کے  عدد آجاتے ہیں؛  لہذا کرپٹو کرنسی کے لین دین سے کلی طور  پر اجتناب   کیا جائے،اور اگر بالفرض یہ حقیقی کرنسی ہوتی تو بھی مجلس عقد میں دونوں جانب سے قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۰۱،ایچ ایچ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں