بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ کارڈ کے استعمال کا شرعی حکم


سوال

بینک کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں!

جواب

کریڈٹ کارڈبنوانا اور اس کا استعمال درست نہیں ہے، اس لیے کہ کسی  معاملے کے حلال وحرام ہونے  کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔ شریعت میں  جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا بنوانا اور استعمال ناجائز ہے  اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا اور اس کا کسی بھی کام میں استعمال کرنا  ناجائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر.

ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

(مطلب كلّ قرض جر نفعًا حرام، ج:5،ص:166،ط:ایچ ایم سعید)

الأشباہ والنظائر میں ہے:

"ماحرم فعله حرم طلبه".

(القاعدة الرابعة عشر،ج:1،ص:348،ط:مکتبه علمیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں