بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی بینک سے سودی رقم لے کر شراکت داروں کو دینے کے بارے میں شرعی حکم


سوال

کمپنی ہر سال اپنے نفع کا پانچ فیصد اپنے ملازمین میں تقسیم کرتی ہے، یہ رقم سال ختم ہو جانے کے بعد اگلے آنے والے نئے سال میں تقسیم کی جاتی ہے، اس دوران یہ رقم بینک میں جمع رہتی ہے جس پر بینک کمپنی کو نفع فراہم کرتا ہے، مثال کے طور پر کمپنی نے ایک کروڑ روپیہ سال 2023 میں نفع کے طور پر کمایا جس میں سے پانچ فیصد یعنی پانچ لاکھ روپے وہ اپنے ہزار ملازمین میں تقسیم کرے گی؛ کیوں کہ  یہ رقم پورے سال بینک میں جمع رہی؛  لہذا بینک نے کمپنی کو ایک کروڑ کے عوض 10 لاکھ روپے نفع فراہم کیا جس کی وجہ سے مجموعی رقم ایک کروڑ 10 لاکھ روپے ہو گئی، پانچ فیصد کے حساب سے اب ملازمین میں ایک کروڑ 10 لاکھ کا پانچ فیصد یعنی 5 لاکھ 50 ہزار روپے تقسیم کیے جائیں گے، اگر کمپنی میں ہزار ملازمین ہیں تو ہر ملازم کے  حصے میں 550 روپے آئیں گے، جو اضافی 50 روپے ہیں،  کیا وہ ملازم کے لیے لینا جائز ہے یا اس کا شمار سود کے زمرے میں ہوتا ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ کمپنی اور بینک کے درمیان جو مذکورہ سودی معاملہ ہے، اس میں سودی معاملہ کا ذمہ دار کمپنی کی انتظامیہ ہوگی، چونکہ اس میں  ملازمین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، ملازمین کے لیے کمپنی کی طرف سے دی گئی پوری رقم لیناجائز ہے۔ 

جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس جيسے  مسئلہ  جي فنڈ سے متعلق لکھتے ہیں:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعًا سود نہیں ، بلکہ اجرت(تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے،  اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز  ہے  ۔"

(جواہر الفقہ ، ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

البحر الرائق میں  ہے :

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق ج:7، ص:300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں