بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تیر کی شکل کے کارتوس سے شکار کا حکم


سوال

آج کل جو چھوٹے  پرندوں کو مارنے کے لیے جو تیر کے شکل کی طرح بنے ہوئے کارتوس استعمال ہوتے ہیں ،کیا  اس سے کیا  ہواشکار حلال ہوگا یا نہیں ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں عام طور  بندوق کی گولی نوک دار نہیں ہوتی، جس بناء پر علماء نے بندوق سے کیا جانے والا شکار ، اگر بغیر ذبح کے مر جائے  تو حرام قرار دیا ہے، بہرحال اگر مذکورہ بندوق کی گولی واقعی نوک دار اور دھاری دار ہو  یا تیر کے شکل کا نوک دار   و دھاری دار کارتوس ہو تو اس سے کیا گیا  شکار حلال ہوگا، لہذا اس پر اگر  اللہ کانام لے کر جانور پر گولی چلائی جائے اور گولی لگنے کے بعد  اس جانور پر قابو پانے سے پہلے ہی وہ مرجائے ،تو اس شکار کا کھانا درست ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أو بندقة ثقيلة ذات حدة لقتلها بالثقل لا بالحد، ولو كانت خفيفة بها حدة حل؛ لقتلها بالجرح، ولو لم يجرحه لا يؤكل مطلقا."

قوله: ‌ولو ‌كانت ‌خفيفة، يشير إلى أن الثقيلة لا تحل وإن جرحت. قال قاضي خان: لا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصا وما أشبه ذلك وإن جرح؛ لأنه لا يخرق إلا أن يكون شيء من ذلك قد حدده وطوله كالسهم وأمكن أن يرمي به؛ فإن كان كذلك وخرقه بحده حل أكله، فأما الجرح الذي يدق في الباطن ولا يخرق في الظاهر لا يحل لأنه لا يحصل به إنهار الدم... ولا يخفى أن الجرح بالرصاص إنما هو بالإحراق والثقل بواسطة اندفاعه العنيف إذا ليس له حد فلا يحل. وبه أفتى ابن نجيم."

(كتاب الصيد،ج:6،ص:471،ط:سعيد)

فتاوی  هنديہ میں ہے:

"ولا يؤكل ما أصابه المعراض بعرضه، ولا يؤكل ما أصابته البندقة فمات بها كذا في الكافي وكذا إن رماه بحجر، وإن جرحه إذا كان ثقيلا، وبه حدة؛ لأنه يحتمل أنه قتله بثقله، وإن كان الحجر خفيفا وبه حدة حل لأن الموت بالجرح، وإن كان الحجر خفيفا وجعله طويلا كالسهم، وبه حدة حل...ولو رماه بعصا أو بعود حتى قتله حرم؛ لأنه قتله ثقلا لا جرحا إلا إذا كان له حد يبضع بضعا فحينئذ يحل لأنه كالسيف والرمح  والأصل في هذه المسائل أن الموت إذا أضيف إلى الجرح قطعا حل الصيد، وإن أضيف إلى الثقل قطعا حرم، وإن وقع الشك، ولم يدر أنه مات بالثقل أو بالجرح حرم احتياطا."

(كتاب الصيد،الباب الرابع،ج:5،ص:425،ط:دار الفکر،بیروت)

تبيين الحقائق میں ہے:

"ولو رماه بعود مثل العصا ونحوه لا يحل؛ لأنه قتله ثقلا لا جرحا إلا إذا كان له حد فبضع بضعا فيكون كالسيف والرمح والأصل في جنس هذه المسائل أن الموت إذا حصل ‌بالجرح ‌بيقين حل، وإن حصل بالثقل أو شك فيه فلا يحل حتما أو احتياطا."

(كتاب الصيد،ج:6،ص:59،ط:دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں