بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال خریدنے کا حکم


سوال

چوری کا سامان خریدنا کیسا ہے؟

جواب

چوری کامال جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ حرام ہی رہتا ہے اوراصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا، اس لیے چوری کا مال فروخت کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے، اور  اگر خریدنے والے کو کسی چیز کے بارے میں یقینی  معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے تو اس کے لیے اس کو  خرید نا  اور استعمال کرنابھی  جائز نہیں ہے، اور اس کا منافع بھی حلال نہیں ہوگا۔

السنن الکبری   میں ہے:

" عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها". 

(کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ج:5، ص:548، ط: دار الكتب العلمية)

         فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". 

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه.

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه". 

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمۃ تتعدد، ج:5، ص:98،  ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں