بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال استعمال کرنے کاحکم


سوال

ایک شخص سرکاری اسکول   میں معلم ہے ،اور اس میں سرکار کی طرف سے بچوں  کے لیے سامان آتا ہے، مثلًا  تیل وغیرہ ،اور وہ بچوں کو دینے کے بجائے خود رکھ لیتا ہے اور بعد میں اوروں کو ارزاں قیمت پر فروخت کر دیتا ہے ،تو کیا اس سے تیل خرید کر استعمال  کرناصحیح ہے  ؟

جواب

چوری کامال جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ حرام ہی رہتا ہے اوراصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا، اس لیے چوری کا مال فروخت کرنا کسی حال میں جائز نہیں، اور  اگر خریدنے والے کو کسی چیز کے بارے میں یقینی  علم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ چوری کی ہے تو اس کے لیے اس کو  خرید نا  اور استعمال کرنابھی  جائز نہیں ہے، اور اس کا منافع بھی حلال نہیں ،لہذا صورتِ  مسئولہ  میں اس تیل  کا خریدنا اور  استعمال کرنا درست نہیں ۔

سنن کبری   میں ہے:

"عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها". 

(السنن الكبرى للبيهقي (5/ 548) کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

         فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

 (5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

 "(قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه". 

(5/ 98، کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمۃ تتعدد، ط: سعید)  

بذل المجہود میں ہے ۔

"صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء."

(کتاب الطهارۃ، باب فرض الوضوء، جلد 1 / 359 / ط : مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي للبحوث و الدراسات الإسلامیة الهند

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144508101354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں