بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال غلطی سے خرید و فروخت کرنا


سوال

اگر کسی شخص نے غلطی سے انجانے میں چوری کا مال خریدا اور بیچ بھی دیا بعد  میں معلوم ہوا کہ  یہ چوری کا مال تھا ،  اب کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص چوری کا مال خریدے پھر بیچ بھی دے   تو چوں کہ چوری کے مال کا وہ خود بھی مالک نہیں ہوتا تو اس کو آگے بیچنا بھی جائز نہیں ہوتا، اور  چوری کا مال خریدنا اور اس کو آگے بیچنا اور اس کا نفع استعمال کرنا سب ناجائز اور حرام ہے۔ لہذا  اس خرید و فروخت میں اگر نفع حاصل ہوا ہو تو اتنی رقم صدقہ کردی جائے اور آئندہ اس طرح کی خرید و فروخت سے اجتناب کیا جائے اور سابقہ پر توبہ استغفار کیا جائے۔

السنن الکبری   میں ہے:

"عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

(5/ 548) کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

وفیه أیضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه.

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".

(ج:5/ ص:98، کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمۃ تتعدد، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں