بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھالیہ اور تمباکو کی خرید وفروخت کا حکم


سوال

جس کام کی قانونًا ممانعت ہو اس کا کرنا کیسا ہے، جب کہ شرعًا کوئی ممانعت نہیں ہے، جیسے چھالیہ تمباکو وغیرہ کی خرید و فرخت؟

جواب

واضح رہے عوام الناس کے مفاد  کی خاطر حکومتی سطح پر جن چیزوں کی خرید و فروخت ممنوع ہو، اس سے اجتناب  ضروری ہے؛ کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا دیانۃً ضروری ہوتاہے؛  اس طرح کے جائز امور  سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، اور معاہدے کی خلاف ورزی سے شریعت نے منع کیا ہے۔ نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا ضروری ہے۔

بصورتِ مسئولہ چھالیہ اور تمباکو   کا کاروبار فی نفسہ جائز ہے، لہذا  چھالیہ اور تمباکو  کی خرید و  فروخت کرنا جائز ہے، لیکن اگر قانونی طور پر  مفادِ عامہ کی خاطر حکومتی سطح پر چھالیہ اور تمباکو  کی خرید و فروخت  ممنوع ہے تو  اس سے گریز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ قانون شکنی کی صورت میں مال اور عزت کا خطرہ رہتاہے ،البتہ چھالیہ اور تمباکو  کی کاروبار سے جو نفع حاصل ہوگا وہ حلال ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع".

(باب البيع الفاسد، ج:5، ص:69، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(كتاب الأشربة،ج:6،ص:460،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بیع غیر الخمر ) ومفاده صحة بیع الحشیشة و الأفیون".

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:454، ط:ایچ ایم سعید) 

قرآن مجید میں ہے:

{واوفوا بالعهد فإن العهد كان مسئولًا} [الإسراء: 34]

ترجمہ: عہد کو پورا کرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارےمیں انسان جواب دہ ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان".

(صحیح مسلم، رقم الحدیث:210)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دار الحديث. القاهرة)

جواہر الفقہ میں ہے:

"ثم السبب إن کان سببًا محرّکًا و داعیًا إلی المعصیة فالتسبب فیه حرام کالإعانة علی المعصیة بنصّ القرآن و إن لم یکن محرکًا وداعیًا بل موصلًا محضًا وهو مع ذلك سبب قریب بحیث لایحتاج في إقامة المعصیة به إلی إحداث صنعة من الفاعل کبیع السلاح من أهل الفتنة ... فکلّه مکروه تحریمًا بشرط أن یعلم به البائع و الآجر من دون  تصریح به باللسان فإنه إن لم یعلم کان معذورًا و إن علم وصرح کان داخلًا في الإعانة المحرمة."

(جواهرالفقه،ج:2،ص:453،ط:دارالاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110201369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں